سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

8۔ عقل اور زبان نہج البلاغہ کی روشنی میں ملک جرار عباس یزدانی

عقل اور زبان  نہج البلاغہ کی روشنی میں

 محقق:  ملک جرار عباس یزدانی        (   ایم فل تاریخ اسلام و اسلامی مذاھب)       

مقدمہ: "قال علی علیہ السلام:ان اغنی الغنی العقل" بہترین دولت و ثروت عقل ہے۔[1]

 اسلام دین عقل ہے اور مکتب اہل بیت میں اسے حجت  باطنی اور رسول باطنی سے تعبیر کیا گیا ہے،یہاں امیر االمومنین ع کے اس فرمان کی روشنی میں کے جس میں عقل  کو سب سے بڑی دولت قرار دیا گیا کچھ عرائض صفحہ قرطاس پر منتقل کریں ۔ ابتداء میں ہم  عقل کے بارے میں کچھ لغوی اور اصطلاحی بحث کریں گے اور اس کے بعد    مقالہ کی گنجائش کے مطابق  کچھ مزید  گفتگو کریں گے۔لفظ "عقل" ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی ہر علم اور ہر نظریہ کے مطابق خاص تعریفیں کی گئی ہیں اور ان معانی میں پائے جانے والے فرق( Difference)کی وجہ سے ہمیشہ غلط فہمیاں پیدا ھوئی ہیں-عقل کی اصطلاح کے بارے میں یہ پیدا شدہ ابہام کی وجہ صرف علوم کے خصوصی ہونے کی پیچید گی (Complexicity)سے متعلق ہے نہ یہ کہ عقل ذاتی طور پر ابہام رکھتی ھو-

 لغت میں عقل:

 لفظ عقل اور اس کے مشتقات کے معنی ، سمجھنا ، حاصل کرنا اور قابو     (Control     ) میں کرنا هے۔[2]

اصطلاح میں عقل :

وه بسیط جوهر هے جس کے ذریعه لوگ واقعیتوں کا پتا لگاتے هیں لهذا عقل یعنی واقعیت کو معلوم کرنا هے ، حقیقتوں کومعلوم کرنے کے علاوه عقل ، نفس ناطقه کی محافظ اور اسے شرف بخشنے والی بھی هے[3]اور قرآن مجید میں درک و فهم کے معنی میں استعمالهوا هے ، روایات میں انسان کے درک کرنے ،تشخیص دینے ، نیکیوں پر آماده کرنے اور برائیوں و فتنه و فساد سے روکنے کی طاقت( Power)کے معنی میں هے۔

فلاسفہ کی نظر میں عقل کی مختلف اقسامTypes اور درجےهیں :

1.        نظری عقل؛نظری عقل کے ذریعه انسان ، طبیعت، ریاضیات (Mathmetics)، منطق و الٰهیات ، خلاصه یه که حکمت نظری سے مربوط(Connected) وجود و عدم ، تھا یا نه تھا ، هے یا نهیں هے ، جیسے مفاهیم کو سمجھتی اور درک کرتی هے ۔ دوسرے لفظوں میں، نظری عقل کاکام واقعیتوں کو درک کرنا اور انھیں پهچان کر ان کے بارے میں فیصله کرنا هے

2.      عملی عقل: اس کا  کام  ، عزم و اراده ، ایمان اور فیصله کی جگه هے یعنی وه جگه (Position)جهاں سے عمل شروع هوتا هے۔ عملی عقل اس قوت و طاقت (Power)کو کهتے هیں جو انسان کے اعمال وکردار کو کنٹرول (Controle)کرتی هے ۔ یا اس کا کام (چیزوں کی ضرورت اور عدم ضرورت) کو درک کرنا هے درحقیقت عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیاد (Base) هے اور عملی عقل کی قضاوت کا مقام یه هے که اس کام کو کروں یا نه کروں ؟[4] -   عملی عقل امام جعفر صادق (علیه السلام) کی زبان میں ؛ انسان کی عبودیت کا مرکز اور خداوند عالم سے جنت حاصل کرنے کی پونجی هے ((العقل ما عبد به الرّحمٰن و اکتسب به الجنان}۔[5]

3.    عام عقل:یعنی وه عقل جس کی تمام تر کوشش ظاهری زندگی کا تحفظ هے ، عوام الناس اس طرح کی عملی طاقت  (Practical   Power) کو عقل کهتے هیں ۔

اسلام میں عقل کی اہمیت:

اسلام کے حیات آفریں مکتب میں عقل کا مقام بهت هی بلند وبرتر هے ، علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے هیں : انسان کے وجود میں سب سے زیاده شریف قوت عقل هے [6]خداوند عالم نے قرآن مجید میں انسانوں کو اس خدادادی طاقت سے استفاده کرنے کا حکم(Order)تین سو سے زیاده مرتبه دیا هے [۹][7]علامه کے مطابق تفکر و تعقل کا مرتبه اتنا بلند هے که خداوند عالم نے ایک مرتبه بھی اپنے بندوں کو نه سمجھنے یا اندھی تقلید کا حکم نهیں دیا هے [8]،عقلی و نقلی دلیلوں کی بنیاد پر ان وسیع مخلوقات(Creatures)کے درمیان عقل کی کارکردگی کا میدان عالم طبیعت کے واقعات و حوادث ،شرعی احکام اور اجمالی طور پر خدا کی شناخت و معرفت هے ۔

یعنی انسان کی عقل میں خدا کی ذات کی شناخت کرنے کی طاقت نهیں هے اس لیئے که هر مخلوق چون که مخلوق و حادث هے لهذا لا محدود(Unlimited)و بے نهایت نهیں هو سکتی اور انسان کی عقل چونکه خدا کی پیدا کی هوئی مخلوق هے لهذا محدود هے اور محدود، لامحدود و بے نهایت (خدا) کو نهیں پهچان سکتی ،انسان کی عقل کائنات عالم ، اس میں رونما هونے والے حادثات اور اس کے قوانین (Rules and Regulations)کو پهچان سکتی هے اور اس کے بارے میں فیصله بھی کر سکتی هے ۔احکام کی شناخت کے لیئے بھی علماء عقل پر اعتماد کرتے هیں ، علم فقه میں عقل قرآن و سنت کے همراه احکام کی شناخت کی دلیل کا عنوان قرار پاتی هے ؛ علم اصول میں بھی یه ثابت هے که حسن و قبح عقلی کے باب میں شارع مقدس کے اوامر و نواهی کی اطاعت کا واجب هونا عقل کے حکم سے هے  [9]علامه طباطبائی ، فرانسوی معترض ((هانری کاربن)) کے اس سوال که آپ اور کتاب و سنت کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا کرتے هیں؟ کے جواب میں فرماتے هیں ؟ جب قرآن نے صراحۃً عقل کے نظریه کی تصدیق کر دی هے تو ان دونوں کے درمیان اختلاف (Difference)کا سوال هی پیدا نهیں هوتا[10]۔اسلام کی نظر میں بعثت انبیاء کا فلسفہ بھی یہ ہے کہ  وہ انسان کی خوابیدہ عقل کو بیدار کریں چنانچہ امام علی فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ و بشیروا لهم دفائن العقول۔ ۔ ۔ علم کے خزانه ان لوگوں کے لیئے کھول دیں ۔حضرت علی (علیه السلام) اس کلام میں انبیاء (علیهم السلام) کی بعثت کا فلسفه بیان کرتے هیں که خداوند نے نبیوں (علیهم السلام) کو لوگوں کی طرف بھیجا تا که وه ان کی سوئی هوئی عقل کو بیدار کریں ۔

شریعت اور عقل میں مطابقت:

انسان کی عقل و فطرت اس خزانه کی مانند هے جس میں تمام واقعیتیں اور حقائق موجود هیں اسی لیئے پیغمبر جو کچھ فرماتے هیں وه عقل و منطق کے مطابق هوتا هے ، اصول فقه میں ایک اصطلاح ((قاعده ملازمه)) هے جس کا کهنا هے که ((کل ما حکم به العقل حکم به الشرع [11]جس چیز کا عقل حکم کرتی شریعت بھی اس کا حکم کرتی هے اور اس کے برعکس بھی صحیح هے یعنی ((کل ما حکم بہ الشرع حکم به العقل))جن چیزوں کا شریعت حکم دیتی هے ان کا عقل بھی حکم دیتی هے اسی وجه سے شرعی احکام کی بنیادوں میں سے ایک عقل هے ۔لهذا شارع مقدس اور انبیاء (علیهم السلام) کا حکم عقل کے خلاف نهیں هے ۔ وه جو بھی کهتے هیں وه عقلی بات هوتی هے مگر شیطانی وسوسوں کی وجه سے انسان ان سے غافل هو جاتا هے ، انبیاء (علیهم السلام) آئے تا که وه انسانوں کو عقل کے خزانوں کی یاد دهانی (Remind)کرائیں ۔

نتیجه عقل و شریعت آپس میں هم آهنگ اور ایک دوسرے کے ساتھ هیں ، شریعت میں کوئی ایسا حکم جو حقیقت میں عقل کے خلاف هو موجود نهیں هے اسی لیئے انسان هر چیز کو قبول کرنے کے لیئے دلیل تلاش کرتا هے جو اسے مطمئن کر سکے اور جب بھی کوئی حقیقت دلیل کے ذریعه واضح و روشن هوجاتی هے اسے وه قبول(Accept) کرلیتا هے ۔ اسی حد تک ؛ یعنی کائنات اور اس کے حوادث ، دنیا پر حاکم قوانین اور شرعی احکام عقل کے قبضه قدرت میں هیں تا که ان کے بارے میں غور کرکے فیصله (Decide)کرے ، لیکن خدا کی معرفت اور اس کی حقیقت سے آشنائی کے سلسله میں عقل کی کارکردگی محدود(Limited)هے اور وه اس کی کام حقه شناخت سے قاصر هے۔

عقل حجت باطنی :

عقل، انسانوں کی باطنی حجت هے ، جو انهیں کمال کی راه میں رهبری کرتی هے اور شریعت (دین) ظاهری حجت هے جو انهیں آلود گیوں سے نجات دلاکر انسانی کمال وسعادت کی طرف راهنمائی (Guide)کرتی هے – اس بناپر ممکن نهیں هے که حجت ظاهری وباطنی کے در میان کسی قسم کا ٹکراٶ هو-عقل ونقل ایک دوسرے کے پیچهے یعنی طول میں قرار پائے هیں– عقل انسانوں کی باطنی حجت هے جوانهیں کمال کی راه میں رهبری کرتی هے ، اور شریعت ظاهری حجت هے جو انسانوں کو آلودگیوں کے بھنور سے نجات دے کر انهیں انسانی کمال وسعادت کے ساحل کی طرف هدایت کرتی هے- جیسا که حضرت امام موسی کاظم علیه السلام فر ماتے هیں : " خدا وند متعال نے لوگوں کے لئے دو حجتیں قراردی هیں : ظاهری حجت اور باطنی حجت ، لیکن ظاهری حجت خدا کے انبیاءاور ائمه اطهار علیهم السلام هیں اور باطنی حجت انسانوں کی عقل هے–"[12]

حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی روایت کے مطابق خدائے واحد تک پهنچنے کے دوراهنما هیں : ایک ظاهری راهنما اور ایک باطنی راهنما – لیکن یه بات قابل ذکر هے که یه ظاهر و باطن کی دو حجتیں دو مستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز راستے نهیں هیں انسان اس وقت مقصد تک پهنچ سکتا هے جب ان دو راهنماٶں کے در میان انتهائی هم آهنگی هو-

عقل کی حقیقت کیا ہے؟

عقل، حقیقت میں وہی انسان کی خود آگاہی ہے جو ادراک کے ہر مرتبہ پر عمل Actکرتی ہے اور یہ خود آگاہی صرف انسان سے مخصوص (Specific) ہے اور حیوانات شعور رکھنے کے باوجود "میں" نام کے عنصر اور خود آگاہی سے عاری ہیں- بہ الفاظ دیگر عقل، وہ آگاہی کا نور ہے جو ادراک کے تمام ارکان ( حواس، تصورات، فکر  حافظہ وغیرہ) پر آگاہی اور احاطہ رکھتا ہے اور سب کو روشنی بخشتا ہے-

انسان کے اپنے وجود کی نسبت اور حقیقت میں اپنے آپ پر شاہد ھونے کی یہ آگاہی انسان سے مخصوص تمام فہم و ادراک کا مرکز (Centre) ہے- جو انسان اپنے بارے میں آگاہ ہو وہ اپنی اس آگاہی کے اثر میں ہر امر سے متعلق آگاہ و شاہد کے عنوان سے خود بخود امتیاز و فیصلہ(Decision) کرنے کی قدرت پیدا کرتا ہے اور صرف اس وقت غفلت سے دوچار ہوتا ہے جب اس میں یہ توانائی (Energy) موجود نہ ہو،پس جس طرح عقل عدم غفلت کی صورت میں کمیت و عددی امور سے روبرو ہونے کے وقت محاسبہ کی طاقت رکھتی ہے، اسی طرح معنوی اور بلند تر امور کے بارے میں بھی ایک متعالی ادراک رکھتی ہے اور اس کے مختلف درجات تدریجا شکوفا ہوتے ہیں-

اس بیان کے پیش نظر انسان کی عقل اور اس کا انسان میں ہر مرتبہ پر موجود ہونا ایک فطری (Natural)، بدیہی اور ذاتی(Personal)امر ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں پیچیدہ (Comlicated)نظری مباحث کی ضرورت ہے-منطقی عقل کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی کوششوں کے بے فائدہ ھونے کی وجہ (Reason) یہ ہے کہ مسئلہ کے فرض کی بنا پر " منطقی ثبوت" صرف عقل کی ایک طاقت اور وسیلہ ہے، لہذا عقل کو اپنا ثبوت پیش کرنے کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ذاتی طور پر خود آگاہی ہے اور ہر چیز عقل کی آگاہی کے نور سے آشکار و ثابت ھوتی ہے-

عقل کی موجودگی کا ادراک کرنے کے لئے ضروری(Important)شرط اپنے آپ سے عدم غفلت ہے اور عقل سے دور ھونے کی وجہ اپنے آپ کو نہ پہچاننا اور اپنے بارے میں بیگانگی اور ذہن کا بعض اندھی خواہشات کا غلام بننا ہے-قرآن مجید کے مطابق بھی انسان عقل رکھتے ہیں، لیکن ان کے دل کے اندھے پن کی وجہ سے اس سے استفادہ نہیں کر سکتے ہیں:" کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ ان کے پاس ایسے دل ھوتے  جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ھوتے جو سن سکتے اس لئے در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ھوتی ہیں، بلکہ وہ دل اندھے ھوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں،"[13] ایک دوسری آیہ شریفہ میں ارشاد ھوتا ہے:" اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہےکہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں-"[14]

عقل کی حقیقت کے بارے میں چند روایات:

1.        امام صادق (ع) سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت (ع) نے جواب میں فرمایا:" عقل وہ چیز ہے، جس سے خداوند متعال کی پرستش کی جاتی ہے اور بہشت ملتی ہے-" راوی کہتا ہے کہ، میں نے کہا: معاویہ کے پاس جو (عقل کے عنوان سے) چیز تھی وہ کیا تھی؟ جواب میں فرمایا وہ فریب کاری ہے اور شیطنت ہے، وہ بظاہر عقل لگتی ہے، لیکن وہ عقل نہیں ہے-"

2.      جب خداوند متعال نے عقل کو پیدا کیا- - - ارشاد فرمایا :" میری عزت و جلال کی قسم تجھ سے محبوب تر کسی مخلوق کو میں نے پیدا نہیں کیا ہے اور تجھے میں نے صرف ان افراد کو مکمل طور پر عطا کیا، جنھیں میں دوست رکھتا ھوں-"

3.    جبرئیل حضرت آدم (ع) پر نازل ھوئے اور کہا: اے آدم (ع) مجھے ماموریت ملی ہے کہ تین چیزوں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا آپ کو اختیار دیدوں اور باقی دو چیزوں کوآپ  چھوڑ دیں- حضرت آدم (ع) نے سوال کیا: وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ جبرئیل نے کہا: عقل، حیاء اور دین- آدم (ع) نے کہا کہ میں عقل کو منتخب کرتا ھوں- جبرئیل نے حیاء و دین سے کہا کہ تم دونوں عقل کو چھوڑ کر واپس جانا- ان دونوں نے جواب میں کہا: اے جبرئیل ! ہم مامور ہیں کہ جہاں پر عقل ھو وہیں پر ہم بھی رہیں"-

4.     پیغمبر اسلام ( ص) نے فرمایا: خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عقل سے بہتر کوئی چیز نہیں بخشی ہے، کیونکہ عاقل کا سونا  جاہل کی شب بیداری سے بہتر ہے اور عاقل کا گھر میں رہنا جاہل کے ( حج و جہاد کی طرف) سفر(Travel)کرنے سے بہتر ہے- اور خداوند متعال نے پیغمبر و رسول کو عقل کو مکمل(Complete) کرنے کے علاوہ کسی چیز کے لئے مبعوث نہیں کیا ہے-( جب تک  نہ عقل کو مکمل کرے تب تک مبعوث نہیں کرتا ہے) اس ( پیغمبر و رسول) کی عقل تمام امت کی عقلوں سے برتر ہے- اور جو کچھ پیغمبر رکھتا ہے وہ مجتہدین کے اجتہاد سے بالاتر ہے اور جب تک  ایک بندہ واجبات کو اپنی عقل سے حاصل نہیں کرتا، اسے انجام نہیں دیتا ہے- تمام عابد اپنی عبادت کی فضیلت میں عاقل تک نہیں پہنچتے- عقلا وہی صاحبان عقل ہیں کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے:" صاحبان عقل ہی نصیحت قبول کرتے ہیں-"

5.     امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:" خداوند عز وجل نے عقل کو عرش کے بائیں جانب اپنے نور سے پیدا کیا ہے یہ روحانیوں سے پہلے پیدا کی گئی مخلوق ہے"-

6.      " ایمان و کفر کے درمیان عقل کی کمی کے علاوہ کوئی فاصلہ نہیں ہے-" [15]

مراتب عقل:

یہاں پر ہم عقل کے مراتب کے بارے میں دینی معرفت کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 عقل اس کے عام معنی میں وہی انسان کی خود آگاہی ہے جو انسان کے وجود کا نور ہے،اس بنا پر عقل کے مراتب بھی انسان کی اپنے آپ کے بارے میں خود آگاہی کے مراتب ہوں گے کہ یہ خود آگاہی تمام حسی، خیالی، فکری اور حافظہ وغیرہ جیسےادراکات پر مشتمل ہے اور ان تمام ادراکات کو انسانی فہم و ادراک میں شامل کرتی ہے- یہ جو ہم نے کہا کہ عقل ان ادراکات کی آگاہی ہے نہ کہ بذات خود ادراکات، اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے قرآن مجید کی تعریف کے مطابق انسان آنکھیں ( ادراک حسی) رکھتا ہو لیکن نہ دیکھتا ہو اور محاسبہ کی طاقت (Power)رکھتا ہو لیکن تعقل نہ کرتا ہو، حافظہ رکھتا ہو لیکن عبرت حاصل نہیں کرتا ہو- لیکن عاقل انسان مذکورہ تمام ادراکات کے بارے میں زندہ فہم رکھتا ہے اور یہی فہم انسان کے اندر عقل ھونے کا ثبوت ہے-

البتہ دنیوی امور کے لئے محاسبہ اور قیاس کی قدرت عقل کے وسائل میں سے ایک ہے جو اپنی جگہ پر بخوبی عمل کرسکتی ہے، یعنی یہ قدرت انسان کے تمام وجود میں انسان کے نفس امارہ کے فائدے میں استفادہ کرتی ہے- ان حالات میں محاسبہ کی قدرت جو عقل کے مشابہ ہے، نہ کہ خود عقل، انسان کے وجود کو اپنی سطح پر اسیر کرکے اسے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور محاسبات کی کمیت کے علاوہ سب چیزوں کا انکار (Deny)کرتی ہے-

اس یاد دہانی کے بعد، عقل کے مراتب کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: عقل کا پست ترین درجہ وہی انسان کی اپنے حواس کے بارے میں آگاہی ہے، کہ انسان اپنی عقل سے استفادہ کرکے اپنے حواس سے حاصل ھونے والے پیغام کے معنی کو سمجھتا ہے اور بلند مرتبہ میں عقل، فکر کی آگاہی ، حافظہ، علم، عبرت اور حکمت پر مشتمل ھوتی ہے- اس کے بعد ان مراتب میں سے ایک برتر مرتبہ پرعقل نمایاں ھوتی ہے- جو وحی اور شہودی ادراکات ( اس کے کل معنی میں) کے مراتب کے سلسلہ پر مشتمل ھوتی ہے اور بالاخر عشق الہی اور توحید عرفانی کا مرتبہ، بالاترین درجہ کے عنوان سے عقل کی شکوفائی کی حس سے گزر کر آشکار ھوتا ہے۔

اس بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور روایات کی اصطلاح میں عقل کو انسان کے نجات بخش عنصر کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے اور اس کا ایک عظیم دائرہ ہے- اسی لحاظ سے قرآن مجید اور معصومین ( ع) کی زبان میں عقل کی مذمت اور سرزنش کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے- صرف قیاس کے بارے میں، روایات میں مذمت وارد ہوئی ہے  کیونکہ قیاس عقل کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ عقل کے وسائل کا ایک سطحی حصہ ہے۔

قال علی علیہ السلام:لسان العاقل وراء قلبہ،و قلب الاحمق وراء لسانہ۔  عقلمند کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتا ہے۔[16]

امام علی علیہ السلام کے مندرجہ بالا فرمان میں عقل مند اور بیوقوف کی نشانی بتائی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک طرح سے گفتگو کا انداز اور طریقہ بھی  بتایاگیا ہے۔گویا  اس فرمان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور انسانی عقل میں گہرا تعلق(Relation)موجود ہے جس کی طرف  امیرالمومنین اشارہ فرما رہے ہیں۔

 عقل مند وہ ہے  جو گفتگو کے قوانين کا خيال رکھے اور اس قوت کو بغير ضرورت (Without Need)     کے استعمال نہ کرے جائز کاموں ميں بھي زيادہ گفتگو کي وجہ سے دل ميں  سختي آ جاتي ہے ليکن  باطل اور خلاف کام جو خواہ معمولي نوعيت کے بھي ہوں ان ميں زيادہ گفتگو کرنے سے دل سنگدل ہو جاتا ہے - زيادہ گفتگو کے سامنے اگر ہم  کم گفتگو کريں تو يہ ہماري دنيا اور آخرت کي خير کا باعث بنتي ہے - لفظ عقل اصل ميں عقال سے نکلا ہے اور يہ وہ رسي ہے جس سے چيزوں کو باندھ ديا جاتا ہے اس معني کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہم کہہ سکتے ہيں کہ عقل وہي رسي ہے جو نفس کو کنٹرول کرتي ہے اور اس ميں وہ طاقت(Power)ہوتي ہے جو تمام اعضا  اور اطراف کو قابو (Control)کر سکتي ہے -  جب زبان عقل کے  قابو ميں ہوتي ہے تو قدرتي طور پر لغو اور  بري باتوں سے بچي رہتي ہے اور  انسان مفيد کاموں کے علاوہ اس کا استعمال نہيں کرتا ہے -

دوسري طرف جب عقل کمزور ہو جاتي ہے تو زبان خود کو عقل کي حکمراني سے آزاد(Free)تصور کرنے لگتي ہے اور  يوں ہر بات انسان کي زبان پر آنے لگتي ہے جس کا اس سے کوئي تعلق بھي نہيں ہوتا ہے اور اس سے خوامخواہ نقصان اٹھاتا ہے جوں جوں انسان کا عقل و شعور زيادہ ہوتا جاتا ہےوہ کمال کي طرف بڑھتا جاتا ہے اور يوں ويسے ہي وہ کم بولتا ہے اور زيادہ سوچتا ہے -

جو انسان زيادہ بولتے ہيں اور اپني زبان قابو ميں نہيں رکھتے ہيں  ان کي عقل کم اور سوچنے کي صلاحيت کم ہوتي ہے -  ايسے لوگ بغير سوچے زبان سے ہر لفظ کو ادا کر ديتے ہيں ليکن اس کے برعکس عقلمند افراد جب تک موضوع (Topic)کے متعلق ہر طرح کي آگاہي (Information)حاصل نہ کر ليں  اور اس کے اچھے اور برے پہلو کے بارے ميں جان نہ ليں زبان سے کوئي بھي لفظ ادا نہيں کرتے ہيں -

اسي وجہ سے عاقل انسان کم بولتا ہے کيونکہ وہ اپنے وقت کو ان  الفاط  کے بارے ميں سوچنے پر صرف کرتا ہے جو وہ ادا کرنا چاہتا ہے ،عقل مند شخص ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد الفاظ ادا کرتا ہے ،بےوقوف انسان  بغير سوچے بولنا شروع کر ديتا ہے جس سے  دوسرے اشخاص کو  ناراحتي کا احساس ہوتا ہے –اور شاید اسی لئے امیر المومنین  ع عقل کے کمال کو کم گوئی  سے جوڑتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلاَمُ جب انسان کي عقل کامل ہوتي ہے تو اس کي گفتگو کم ہو جاتي ہے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا :جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کرے گا وہ اپنی عقل کی تباہی کے لئے اپنی خواہشات کی مدد(Help)کرے گا۔

¬   جو لمبی چوڑی آرزوؤں (Wishes)سے اپنی فکر کے نور کو تاریکی میں بدل دے۔

¬   جو فضول باتوں سے مختلف قسم (Different type)کی حکمت کی باتوں کو محو کردے۔

¬   اپنی شہوات کے ساتھ عبرت کے نور کو بجھا دے۔[17]

یہاں ہم اپنی گفتگو کو سید رضی کے اس کلام کے ساتھ ختم کر رہے ہیں کہ جو انہوں نے اس کلمہ قصار کے ذیل میں نقل کی ہے  سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ بڑی عجیب و غریب اور لطیف حکمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان غورو فکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا کہ عاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اسکی زبان کا پابند ہے۔[18]


[1] ۔ نہج البلاغہ،حکمت ۳۸

[2] ۔ معین ، محمد، فرهنگ معین،(ایک جلدی) لفظ عقل،

[3] ۔ سجادی ،سید جعفر ، فرهنگ علوم فلسفی و کلامی ، ماده عقل

[4] ۔ کلینی اصول کافی ، ج ۱ ،ص ۱۱

[5] ۔ جوادی آملی ، عبد الله ،فطرت در قرآن ، ج ۱۲ ، ص۲۹

[6] ۔ طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ، ج ۳ ، ص۵۷و ص۲۵۵

[7] ۔ تفیسی ، شادی ، عقل گرائی در تفاسیر قرن چهاردهم ، ص۱۹۴۔۱۹۵

[8] ۔ ملکی اصفهانی ، مجتبیٰ ، فرهنگ اصطلاحات اصول ، ج ۲ ، ص۲۲۹

[9] ۔ کدیور ، محسن ، دفتر عقل ، ص۱۱۵

[10] ۔ نهج البلاغه ، خطبه نمبر۱

[11] ۔ مظفر ، محمد رضا ، اصول الفقه ، ج ۱ ، ص۲۱۷

[12] ۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۱ ، ص۳۳۔۳۴

[13] ۔ لحج،۴۶

[14] ۔ الاعراف/۱۷۹

[15] ۔ کلینی، الکافی، ج۱، ص۱۲،  دار الکتب الاسلامیة، تهران، ۱۳۶۵ ش

[16] ۔ نہج البلاغہ حکمت ۴۰

[17] ۔ مجلسی،محمد باقر،بحار الانوار، جلد،۱ صفحہ،۱۳۷،موسسہ  الاء،بیروت،۱۴۰۴

[18] ۔ نہج البلاغہ،اردو ترجمہ  علامہ جوادی،ص ۶۴۳