سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

7۔ حسن اور احسن قرآن کی روشنی میں سید عادل علوی (مدظلہ)

                           حسن اور احسن قرآن کی روشنی میں

از: سیدعادل علوی(مدظلہ)

ترجمہ: ذاکرحسین ثاقب

"يا مقلب القلوب والأبصار يا مدبّر الليل والنهار، يا محول الحول والأحوال، حوّل حالنا إلى أحسن حال"

اےدلوں کو پھیرنے والے اور بصارت کو پھیرنے والے ، اے رات اور دن کی تدبیر کرنے والے (اللہ)، اے حال اور احوال کو اپنی تحویل میں لینے والے، ہمارے حال کو اچھے (بہترین) حال میں بدل۔

بتحقیق دار دنیا    میں انسان کیلئے سختی اور راحتی  دونوں پایاجاتاہے۔  جس میں خوبصورتی  بھی ہے بدصورتی بھی،  روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی ،اچھائی بھی ہے اور برائی بھی  ، حق بھی ہے باطل بھی، دن بھی ہے رات بھی ، علم بھی ہے جہالت بھی، اچھے بھی ہے اور برے بھی، وغیرہ۔

حسن اس کو کہتے ہیں جو طبیعت کو خوشگوار  اور مرغوب لگے۔ یعنی ہر وہ چیز  جو خوشی اور سرور کاموجب بنتی ہے،  جس کی طرف  میلان، رجحان  اور رغبت  زیادہ ہو۔

اور حسن کی  چند قسمیں ہیں۔

1۔  جو عقل   کے لحاظ سے حسن اور مستحسن ہے یعنی جس کے بارے میں عقل حکم لگائے ۔ جس  سےحسن عقلی ذاتی کہاجاتاہے۔

2۔ جس کی اچھائی کے بارے میں شارع مقدس   حکم لگائے۔ جس سے حسن شرعی کہاجاتاہے۔

3۔ نفسانی غرائزو ملکات نفسانی جو باطنی صفات سے عبارت ہے۔

4۔ جو حواس ظاہری   کے لحاظ سے  اچھا اور مستحسن ہے۔

اور حسن سے ماخوذ (حسنہ) ہے ۔ جو اس چیز  کی عکاسی کرتا ہے۔ کہ  وہ تمام نعمتوں کے  اسرار  جو انسان  کے نفس، بدن  اور احوال  تک پہنچ جاتاہے ۔

اور سیئہ  اس کا (ضد )یعنی مقابل میں ہے ۔ یہ دونوں  دوالگ جنس کے مختلف  اقسام ہیں۔  اور ان میں سے ہر ایک کیلئے    انواع و اقسام پائے جاتے ہیں۔ جیساکہ حیوان کے انواع میں سے:  شیر، گھوڑا، انسان ہے۔ اور خود انسان کے اصناف میں سے: غریب ، امیر وغیرہ  اس کیلئے بھی انواع و اقسام پائے جاتے ہیں۔جیسے زید ، عمرو، بکر۔۔۔وغیرہ۔

پس خدا وند عالم نے قرآن کریم میں "حسن " کے بھی بعض انواع و اقسام  بیان فرمایاہے : جیسا کہ ارشاد خداوندی ہو رہاہے۔:"وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ" (یعنی: زرخیز ،صلاحیت اور ظفر) ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اچھے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے"وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ" (یعنی:ناکامی، تنگی ا ور مایوسی، ) اللہ تعالیٰ کایہ قول: "مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللَّهِ"  تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے(یعنی :ثواب میں سے) "وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ"اور جو بھی برائی پہنچی ہے (یعنی: سزا  اورعقاب میں سے)وہ خود تمہاری طرف سے ہے۔  

پھرحسن ، حسنہ  ، حسنى  کے درمیان فرق:حسن حوادث اور اشیاء  کیلئے کہاجاتاہے۔  اور حسنہ  بھی اسی طرح   اگر وصف  ہو ،بغیر اشیاء کے ،  اور حسن  اکثرلوگ  محاوروں  میں استعمال کرتے ہیں  ، اورعرف کی نگاہ میں جو مستحسن ہو، یعنی  انسان کی نگاہ جس کو اچھا کہے۔ جیساکہ کہاجاتاہے: فلان شخص اچھاہے یا فلان عورت اچھی ہے ۔

اور جو حسن اکثر قرآن مجیدمیں  آیا ہے وہ ہے جو بصیرت کے لحاظ سے اچھاہو ، یعنی جس کاتعلق قلب (دل)سے ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی  متعدد آیات ہیں:کہ"الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"( یعنی :جو شکوک و شبہات سے بہت دورہو) جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں ۔ "وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً"(یعنی: سب کیساتھ اچھائی)  لوگوں سے اچھی باتیں کرنا"وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْناً"اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے"قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ"  آپ کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس بات کا بھی انتظار کررہے ہو وہ دو میں سے ایک نیکی ہے۔

اور احسان کی دو قسمیں ہیں:

1۔   احسان  کی ایک قسم یہ ہے:  کہ دوسروں کی خدمت اور دوسروں کے کام آنا۔ 

2۔  احسان  کی دوسری قسم یہ ہے : اپنے عمل میں اچھائی کرنا ۔  یہ اس وقت ہے کہ جب وہ جانتاہو کہ اس کا یہ عمل اچھا ہے ۔

 جیسا کہ امیراالمومنین علیہ السلام کا فرمان ہے؛کہ"الناس أبناء ما يحسنون " یعنی:  لوگوں  کے اعمال اور افعال حسنہ کی طرف  نسبت دیاگیاہے۔اور  احسان انعام کی نسبت عام ہے۔

الله تعالیٰ کا فرمان ہے۔ : "إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لأَنفُسِكُمْ" اب تم نیک عمل کرو گے تو اپنے لئے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کایہ قول:"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ"، بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔

جبکہ احسان عدل سے بھی بالاترہے۔

 عدل :اسے کہاجاتاہے: کہ  جس کا جو حق کسی پر عائد ہوتا ہے اسے ادا کر دیا جائے ، پس ہر چیز کو اپنی صحیح  جگہ پر رکھنایعنی جس کا معنی افراط و تفریط کا وسط اور درمیان ہے اس طرح سے کہ جس میں نہ تو کمی ہو اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی زیادتی ہو ۔

احسان : جس کا جو حق کسی پر عائد ہوتا ہے اسے زیادہ عطا کرنا۔اور اسے کم لینا۔  یعنی  احسان  سخاوت اور جود وکرم  میں سے ہے۔پس احسان عدل  پر اضافہ ہے اور عدل واجب ہے جبکہ احسان  اپنی طرف  سے ہے اور مستحب ہے۔

اور اسی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:"وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ" اور اس سے اچھا دیندار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خد اکی طرف رکھے اور نیک کردار بھی ہو۔  "وأدام إليه بإحسان" اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو پورا پورا  ادا کردے۔

 اسی لئے  اللہ تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں  کو ثواب عظیم قراردیاہے اور فرمایا: "وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ"اور یقینا اللہ حسن عمل والوں کے ساتھ ہے"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" اور اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے "مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ" نیک کردار لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہوتا "لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ" بیشک جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے نیکی ہے۔

اور "حسن" کو(منطق کے اعتبار سےدیکھاجائے)تو کلی مشکک ہے اور جو عرض اورطول کے لحاظ سے  بہت سارے افراد پر ایسے صادق  آئے کہ بعض پر اشد اور بعض پر اضعف  ،بعض پر پہلے اوربعض پر بعد میں ۔  جیسے:  نور کے اعتبارسے ، روشنی  کا اطلاق  سورج کی روشنی   پر زیادہ اور شمع کی روشنی  پر کم اطلاق آتاہے ۔

 پس اسی طرح قرآن کریم   میں بھی ایک مرتبہ "حسن " اوردوسری جگہ  "احسن "کا استعمال  ہونا فضیلت اور مراتب کی بلندی  کے اعتبار سےہے ۔ اوران مراتب  کی گنتی ناممکن ہے۔ اوراس حسن کا  اختتام  رب ذوالجلال کی ذات ،صفات اورافعال سے  ہوتاہے ۔ اور اسی  وجہ سے کہتے ہیں کہ  عبدکے  اخلاق  میں اخلاق خداوند کی خاصیت ہونی چاہیے۔ لہذا  حسن اوراحسن دونوں کو لایاگیاہے ۔ اسی لئے کہ خداوندعالم  ایک مرتبہ حسن اوراحسن  کی نسبت انسان کی طرف دیتاہے ۔ تو دوسری طرف  عبد کے اندر بھی اپنی صفات کا مطالبہ کرتاہے۔

احسن کے مقام  پر خداوندعالم فرماتے ہیں: "ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ" پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشو و نما دی، پھر اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے "صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنْ اللَّهِ صِبْغَةً" (کہہ دو: ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے "َنحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ"(اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں "وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ" اور ہم ان لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ضرور ان کا اجر عطا فرمائیں گے ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے رہے تھے " وَلا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً" اور یہ (کفار) آپ کے پاس کوئی (ایسی) مثال (سوال اور اعتراض کے طور پر) نہیں لاتے مگر ہم آپ کے پاس (اس کے جواب میں) حق اور (اس سے) بہتر وضاحت کا بیان لے آتے ہیں "اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ" اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، "لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ" بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔

یہ سب رب ذوالجلال کی ذات ، میں حسن اوراحسن نمونے ہیں۔ اوراسی طرح خداوندعالم  اپنے بندے کے اندر بھی حسن اوراحسن صفات کا مطالبہ کرتاہے۔جس کے چند نمونے قارئین کی خدمت بیان کرتے ہیں۔

 1 ـ "وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا".  اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو۔

 2 ـ "وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ". اور دین اختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔

 3 ـ "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً".  جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے

 4 ـ "وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ". اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔

 5 ـ "وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ". اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو

 6 ـ "وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ". اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں

 7ـ "وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ". اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو

 8 ـ "وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ". اور اس بہترین (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب اتاری گئی ہے۔

 9 ـ "ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ". اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو ۔

 10ـ "إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً".  اور بیشک ہم نے اُن تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعثِ زینت (و آرائش) بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو (جو زمین کے باسی ہیں) آزمائیں کہ ان میں سے بہ اِعتبارِ عمل کون بہتر ہے۔

 11ـ "َفَبَشِّرْ عِبَادِي الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ".پس آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے،جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں۔