سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها
■ مقدمه
■ حج کا فلسفہ امام سجادعلیہ السلام کی نگاہ میں
■ حج کی عظمت
■ رہبرمعظم انقلاب کا حج کے اجتماعی فوائد کے سلسلےمیں خطاب
■ جناب ابراہیم ،اسماعیل ؑاور ہاجرؑ پر الہی برکات
■ مکہ مکرمہ ،خاطرات اور یادوں کی سرزمین
■ سکندر کا داستان
■ حضرت آدم ؑاور شیطان کا داستان
■ اسلام عام ، خاص اور اخص
■ اسلام خاص
■ اسلام اخصّ
■ حضرت علی ؑکی ایک فضیلت
■ شرک کے اقسام
■ کفر
■ نفاق
■ مرتدّ
■ حسن وجمال کی جھلکیاں
■ انسان کامل
■ نورمعصومین ؑ کی خلقت
■ قرآن کریم کے چار مرحلے
■ حج، ضیافت الھی
■ حجّ ، سير الى الله
■ حج کےدلچسپ نکات
■ بيت الله
■ فلسفہ حج اور اسکے اسباب
■ خلاصہ
■ حجرالاسود
■ عوالم کی قسمیں
■ اسرار حج امام سجّادؑکی زبان سے
■ مواقیت پنچگانہ
■ میقات کیا ہے ؟
■ غسل احرام، حج کا پہلا راز
■ لباس احرام، لباس اطاعت ہے
■ نیت ، خد ا کی اطاعت کا عہد کرنا
■ تلبیہ ،رب الارباب کا قبول کرنا
■ تلبیہ اورلبیک کہنے والوں کے درجات
■ تلبیہ کا راز
■ طواف،دل کا زنگار کو صاف کرنا
■ طواف کے سات چکر کاراز
■ نماز طواف
■ کعبے کا راز
■ رکن یمانی (مستجار) ہے
■ صفا و مروه
■ حلق يا تقصير، خداکےحضورکمال انکساری ہے
■ عرفات
■ مشعر الحرام (اہل عرفان کاطور سینا ) مزدلفہ
■ منى ،امیدوں کی سرزمين ہے
■ قربانى ، لالچ کے گلے کو کاٹناہے
■ رمى جمرات
■ طواف زیارت
■ حج حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بہادر کا قصہ
■ مقام ابراهيم
■ طواف نساء
■ حجر اسماعيلؑ
■ روايات میں وجوب حج کے اسباب
■ نزول حج، غیب کے خزائن سے
■ دل کی نگاہ سے باطن اعمال کا مشاہدہ کرنا

روايات میں وجوب حج کے اسباب

روايات میں وجوب حج کے اسباب

1. «مَنْ لَمْ يَحِجَّ ماتَ يهودياً اَوْ نصرانياً».

جو شخص اپنی زندگی میں حج نہیں کرتا ہے وہ یہودی یا نصرانی کی موت مر جاتا ہے۔

2. «مَنْ لَمْ يَحِجّ ماتَ كافرآ».

جو حج انجام نہیں دیتا ہے  وہ کافر مر جاتا ہے ۔

3۔«وُضِعَ البَيْت لِلْحَج ».

خدا کا گھر حج کے لئے بنایا گیا ہے۔

4. «واجبُ مَرَّةً لِبُعدِ الامكنة ».

حج ایک  با ر واجب ہواہے   راستہ دور ہونے کی وجہ سے ۔

5. «مَنْ لَمْ يَحجّ تَرَکَ شريعة من شرايع الاسلام ».

جس نےحج کو انجام نہیں دیا ہے اس نے اسلام کے قوانین میں سے ایک کو چھوڑ دیا ہے۔

6. «للهِ عَلَى الناس حِجَّ البيت ».

 لوگوں پر واجب ہے کہ وہ خدا کے گھر کا حج کریں۔

7. «واجِبٌ مَرَةً واحِدَةً وضع لادنى القوم قوة ».

حج ان لوگوں کے لئے ایک بار واجب ہے جو اس کی متحمل صلاحیت رکھتے ہیں۔

8. «تخفيفٌ مِن ربِّكُمْ ورَحمة ».

تاکہ لوگوں کے لئے  خداوند کی طرف سے رحمت اور آسائش ملے ۔

9. «واتِمّوا الحج والعمرة لله».

اور خدا کے لئے فریضہ حج اور عمرہ کو  اداکرو۔

10. «مَنْ اَرادَ الحَجْ فَتَهَيَّآ لَهُ فحرم ، فَبُذنب حَرَمه ».

جو شخص ،کسی طرح سےبھی  مکہ جانے کے لئے تیار ہے لیکن حج سے خود کو  محروم کیا تو  یقینا اس نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ حج محروم ہوا  ہے۔(امام صادقؑ )

11. «عِلة الحجَ الْوَفادَ اِلَى الله عَزّوَجلَّ وَطَلَبُ الزيادة ».

حج کی وجہ اور علت  خدا کا مہمان بننا اور خدا سے علم، اخلاق اور روزی  طلب کرنا ہے۔

12. «وَالخُروجَ مِنْ كلِّ ما اِقْتَرف ».

اور تمام گناہوں کوترک کرکے   پاک ہونا ہے

13. «وليَكونَ تائباً مِمّا قَضى ».

اور اب انسان نے  جن گناہوں کا ارتکاب کیا ہے اس  سے توبہ کرنا چاہیے ۔

جوکچھ  بیان ہوا ،وہ حج کے اسرار ومعارف ،لطائف اور ذوق وعرفان کے سلسلے میں بحث تھا

حج قرآن کی طرح ہے ، کیوں کہ قرآن کو چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ روایت  میں امام سجّاد ؑ سے  بیان ہوا ہے کہ قرآن  ،کلمات ، معانی ،اشارات ،اور حقائق پر مشتمل ہے حج اور اس کے مناسک بھی  قرآن کی طرح چار قسموں میں تقسیم ہے ہے۔ قرآن مجید میں ایک سورت کو حج نام سے آیا ہے ، اور دیگر سورتوں میں حج کے بارے میں بہت ساری آیات نازل ہوئی ہیں ۔اور  یہ کہ حج انبیا ٔ (ع) کے ساتھ خا ص  ہے اس بنا پر اس کی چار قسمیں ہیں :

1ـ عام لوگوں کا حج :عام لوگوں کی کوشش یہ ہے حج کے تمام اعمال کو بجا لائے لیکن بعض ایسے افراد بھی ہیں جو فقط  واجبات کو انجام دیتے ہیں ایسی صورت میں یہ حج ، حج عصفوری(چڑیا کا حج) کہلاتا ہے اور اس معنی کو روایت سے لیا گیا ہے  کیونکہ نماز کے بارے میں آیا ہے   «الصلوة اوّله جزور وآخِرهُ عصفور» نماز اول وقت میں موٹے اونٹ کا حکم رکھتی ہے۔(یعنی آرام اور تعقیبات کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ) ، لیکن وقت کے اختتام پر چڑیا کا حکم رکھتی ہے۔ (یہ کنایہ  ہے کہ انسان  صرف واجبات کوہی  انجام دے سکتا ہے چونکہ اس کے وقت نہیں ہے )۔عام لوگوں کے  حج سے مراد ان لوگوں کا حج ہے  جو صرف واجبات کو بجالاتے ہیں اور فلسفہ اور عرفان کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ہیں ۔

2.  حج  معنوی: یا حج خاص ۔ خواص میں سے بعض افراد   ، جیسے اہل  حال  ، اہل معنی ،جوان اور بہادر ، جو حج کے راز اور معنی تلاش کرتے ہیں۔ پس وہ واجبات کو بھی بجا لاتے  ہیں اور حج  اسرار و رموز  کا بھی علم رکھتے  ہیں۔

3ـ اولیأ کاحج  : اولیأ خدا حج کے لطائف اور خوبیوں کی تلاش کرتے ہیں۔ وہ حج کے اعمال کو مکمل انجام دیتے ہیں اور اس کے اسرار ،لطائف اور اشارات کی طرف بھی توجّہ دیتے ہیں –

4ـ حج انبیأ الہی: انبیا ٔالہی بھی حج کے حقائق کی تلاش ،اور حج کے اعمال انجام دیتے ہیں ،  چونکہ علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں ، لہذا وہ بھی حج کے حقائق کو  حاصل کرتے ہیں۔ اگر سو (100) ہمارے پاس ہے تو نوے(90) بھی ہے۔ تو وہ بطریق اولیٰ لطائف ،معنی اور الفاظ  تک پہنچ سکتے ہیں  ۔

 نوٹ: حج کےلطائف اوراسرار  کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ  ذوقى اورالهامی ہے۔ علم الہام کی بھی دو قسمیں  ہیں:

 1ـ  علم امامت  2ـ علم مومن ۔

علم مومن : یہ ایک ایسا علم ہے  ہے جو خدا کے فضل سےانسا ن کو ملتا ہے۔  (وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ).( تم خدا سے ڑرو ،اور اللہ تمہیں اپنا علم سکھائے گا۔)لہذا تقوی کے ذریعے حج  کےلطائف اور اسرار تک پہنچ سکتے ہیں  ۔نیز  آیات و روایات اور بزرگان کے اقوال کے ذریعے حج کے رموز کو حاصل کرسکتے ہیں  ۔              افسوس كه عمرى پى اغيار دويديم         از يار بمانديم وبه مقصد نرسيديم

باطن حج کےبارے میں امام صادق ؑ سے ایک روایت ہے آپ نے فرماتے ہیں حج کی ایک  ظاہری شکل  ہے  اور ایک باطنی  شکل ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ قرآن کی ہر آیت کے لئے ایک بطن ہے اور ہربطن  کےلئے 70 معنی ہوتے ہیں۔ پس  پہلا باطن دوسرے کی نسبت ظاہر ہوتا ہے ، اور اسی طرح دوسرا تیسرے کی نسبت ، اور یہ سلسلہ خدا تک جا پہنچتا  سے۔ چونکہ قرآن  ، حج  اور تمام احکام الہی اس اسی کی مانند ہے جس کا ایک  سرا بندوں کے ہاتھ میں  ہے اور دوسرا  خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ الہی رسی عرش خدا سے متصل ہے۔لہذا اس الہی رسی کے لئے مختلف معانی ہیں۔  حج کا ظاہر مثلا احرام ،طواف ،سعی اورتقصیر  وغیرہ  ہے اور حج کا باطن بھی ہے ۔ جب میقات پہنچ گئے،  تو ظاہر ا غسل ،لباس احرام اور دو رکعت  نماز احرام آپ کے لئے مستحب ہے  اوراس کے علاوہ  24چیزیں حرام ہو جاتی ہیں ۔

 ۔ لیکن باطن اعمال یہ ہے کہ آپ کو گناہ کا لباس اتار دینا چاہئے، اورغسل توبہ کےذریعے  گناہوں کو دھو ڈالنا چاہئے اور گناہ سے پاک اور عاری لباس پہننا چاہیے ۔ اعضاو جوارح کا گناہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے ۔اس سے بالا تر یہاں تک کہ انسان کے ذہن وفکر  میں بھی گناہ کا خیال نہیں آنا چاہیے ۔کیونکہ   «حسنات الابرار سيّئات المقرّبين » حتی کہ انسان جوسانس  لیتا ہے  ہیں ،وہ صرف اور صرف خدا کے لئے ہو ، اور ان کا دل ودماغ ہمیشہ رب العالمین کی ذکر  میں مشغول  رہے  اور اس پر  گناہ  کا غبار نہیں بیٹھناچاہیے۔

 سید مرتضیٰ مرحوم ، جب ان کے والد کا انتقال ہوا ،تو اپنے والد کی میراث کی تقسیم کے وقت ، اپنے معزز بھائی ، سید رضی ؒکے ساتھ  کتابیں تقسیم  کر رہے تھے۔ آخر میں ایک کتاب باقی تھی۔ ایک بھائی نے مشورہ دیا کہ جس نے بھی اپنی زندگی میں فعل مکروہ انجام نہ دیا  ہو وہ کتاب لے گا، لیکن دوسرے بھائی نے کہا ، "نہیں بھائی!" جس نے بھی اپنی زندگی میں فعل مکروہ کے بارے میں سوچا ہی نہیں وہ کتاب لے گا۔ اس طرح کتاب ان کی بن گئی۔ یہ عصمت  افعال کی ایک مثال ہے جس میں حضرت معصومہ (س) کی عصمت بھی شامل ہے۔ عصمت ذاتى، معصومينؑ کے  ساتھ  مخصوص ہے  ۔یہ لوگ ہماری طرح محرم نہیں ہوتے ہیں ،جب احرام کے کپڑے پہنے جاتے ہیں تو ان کا رنگ اڑجاتا ہے اور وہ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ امام صادق ؑنے فرمایا : ایسا نہ  ہو کہ خداوند  میرے لبیک کے جواب میں مجھے جواب نہ دےاورکہے :  لالبّيک ولاسعديک ۔اس لئے بعض اسرار جو بیان ہوتے ہیں ان کے مختلف درجات اور مراتب ہیں اور ہر ایک اپنی صلاحیت کے مطابق ان سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ان کی معنویت کو درک کر تا ہے ۔

کتاب شریف  مصباح الشریعہ کے اندر ایک اور روایت میں امام صادق ؑ سے حج کے اسراراور اس کے لطائف   کے بارے میں بیان ہوا ہے اسی طرح  کتاب بحار الانوار ج99،ص124 میں اور کتاب میزان الحکمۃ ج 2حدیث جامع فى الاداب الباطنية للمراقبين میں بھی یہ روایات بیان ہوئی ہیں  

1 ـ «اِذا اَرَدْتَ الحجّ فَجَرِّدْ قلبکَ للهِ مِنْ قَبْلِ عَزمکَ مِنْ كُلِّ شاغِل ».  (جب آپ حج کا ارادہ کریں تو پہلے اپنے دل کو خدا کے لئے تمام چیزوںسے یعنی اہل وعیال اور گھر بار سے عاری اور خالی کریں )

2 ـ «وحجاب كُلّ حاجب وَفَوّضْ اُمُورِکَ كلِّها اِلى خالِقک ». ( گناہ کےپردے                                                                        دنیوی زرق وبرق کے پردے اور  بری صفات کواپنے سے  دور کریں  اور اپنے تمام امور کوتیرے خالق  خدا  پر چھوڑ دیں)۔

3 ـ «وتَوَكَّلْ عَليهِ في جميع ما يَظْهَرُ مِنْ حَركاتِکْ وسَكَناتِکْ ».

              ( خدا پر بھروسہ کریں جو آپ کی حرکات اور عادات سے ظاہر ہوتا ہے)۔۔

4 ـ «وسَلِّم لِقَضائِه وحُكمِهِ وقَدرِهِ ».

     (اور اس کےفیصلےاور حکم  وقدر  کے سامنے سر تسلیم خم کریں)

5 ـ «وَوَدِّع الدنيا والرّاحَة والخلق ».

             (دنیا اور دنیا کے لوگوں نیز  اس کی خوشیوں کو خیر باد کہے )

6 ـ «وَاَخْرجْ مِنْ حُقوقِ تلزمُکَ مِنْ جهة المخلوقين ».

   (اگرآپ کسی عہدے پر فائز ہیں تو حقداروں اور دوستوں کے حقوق کو ادا کریں)

7 ـ «ولا تعتمد على زادِکَ وراحِلتِکَ واصحابکَ وقُوَّتِکَ وشبابک ومالِکْ مَخافَةَ اَن يَصيرَ ذلک عَدوّاً وبالاً».  (سفرکےوسائل ، اپنی جوانی اور اپنی طاقت پر نیز اپنے مال اور دوستوں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ ڈر ہے کہ وہ آپ کےلئے وبال اور دشمن بن جائیں گے۔

8 ـ «قالَ منَ اِدّعى رضا لله واعتمد عَلى شىٍ سواه ، صيّره عليه عدولا ووبالا لَيَعْلَمْ اِنَّهُ لَيْسَ لَهُ قوةً ولاحيلَةً ولا لاَِحدٍ اِلّا بِعصمةَ الله وتوفيق مِنَ الله».  (جو کوئی خدا کی رضایت کا دعوی کرتا ہے اور اس کے غیر پر اعتماد کرتا ہے تو  یہ ضرور جان لے  کہ وہ   اس کے لئے وبال جان اور دشمن ہو گا ،  خدا کے سوا کوئی قدرت  اور حیلہ اس کے لئے  کام نہیں آئے گا اور کامیابی خد ا کی طرف سے ہے ) ـ 9۔«واسْتَعِدْ اسْتِعْدادَ مَنْ لايرجو الرّجوع ».(تیار ہوجاو اور اس طرح  حج میں جاو کہ آپ کو واپس آنے کی امید نہ ہو)۔

10 ـ «واَحسن الصحبة وراعِ اوقات فرائض الله وسنن نبيه  6 ومايحب عليک من الادب والاحتمال والصّبر والشّكر والشّفقة والسّخاءِ وايثار الزّاد عَلى دوام الاوقات ». (اپنے دوستوں کے لئے اچھے ساتھی بنو ،  یومیہ فرائض کے اوقات کی رعایت کریں  اور رسول اللہ ﷺکی سنت پر عمل کریں اور سفر کے دوران  ادب وصبر وتحمل وشكرگزارى ومهربانى وبخشش میں سے جو آپ پر واجب ہے رعایت کریں ۔ )

11 ـ «ثُمَّ اَغْتَسِلْ بِماءِ التّوبة الخالِصة ذنوبک ».

     (پھر اپنے گناہوں کو توبہ کےپانی سے دھوئے)۔

12 ـ «واَلْبِسْ كِسوَةَ الصّدق والصّفاء والخضوع والخشوع واِحرِمْ عَلى كل شىٍ يَمْنِعکَ عن ذكرِ الله ويَحْجَبک عَنْ طاعته ».

  (ور اپنے آپ کو  صدق وصفا اورخضوع وخشوع کے لباس سے ملبوس کرو اور خدا نے جس چیز سے منع کیا ہے اس کو اپنے اوپر حرام کروکیونکہ وہ تمہارے اور خدا کے درمیان پردہ ہے)۔

13 ـ «ولَبّى بمَعْنى اجابة صافية خالصة زاكيةً للهِ عَزّوجل فى دعوتِکَ متمسّكاً بعروة الوثقى ».

 (اور تلبیہ پڑھوکہ جس کا معنی  دعوت خدا   کی اجابت ہو  ایک ایسی اجابت جو پاکیزہ  اورصاف  ہو اور عروۃ الوثقی سے متمسک بھی رہو )۔ 

14 ـ «وطِفْ بقلبکَ مَعَ الملائِكة حَولَ العرش كطوافِکَ مَع المسلمين بنفسِکْ حَوْل البيت ».

(اور دل سے اس طرح طواف کریں کہ فرشتوں کے ہمراہ عرش الہی کے گرد طواف کررہاہے جبکہ مسلمانوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے گرد طواف   کر رہا ہے)۔ 

15 ـ «وَهَرْوِلْ هَرولةً هَرباً من هواک وتبرياً من جميع حولک وقوتک واخرج عن غفلتک وزلّاتکَ بخروجکَ اِلى مِنى ولاتَتَمَنَّ مالايَحِلُّ لَکَ ولاتَسْتَحِقّهُ ». (وراس طرح ھرولہ کریں کہ اپنے نفس کی خواہشات سے فرار کر رہے ہو اور جو کچھ تیرے  آس پاس  ہے اس سے بیزاری کریں اور جب منیٰ کی سمت  جانا چاہتے ہو تو جہالت سے دور ہوجائیں اور کسی ایسی چیز کی خواہش نہ کریں جس کے آپ مستحق ہیں)۔

16 ـ وَاَعْتَرِفْ بالخطايا بعَرفات ».

(عرفات میں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں)۔

17 ـ «وَجَدِّدْ عَهْدکَ عندالله بوَحدانيته ».

 (اور خدا کے ساتھ اس کی وحدانیت  کا تجدیدعہد کریں)۔۔

18 ـ «وتقرّب الىَ الله واتّقه بمزدلفة ، وَاصْعِدْ بِروحِکَ اِلىَ المَلاَءِ الاَعْلى بصُعُودِک الىَ الجبل ».

(ور خدا کے نزدیک ہوجاو اور مزدلفہ میں خدا سے ڑرو اورپہاڑ پر چڑ ھتے وقت  اپنے روح کے ذریعے ملأ اعلیٰ کی طرف سفر کرو)  

19 ـ «واَذْبِحْ حَنْجَرةِ الهَواءِ والطَّمع عِندَ الذبيحة ».

(قربانی کے موقعے پر لالچ اور خواہشات نفسانی کے حلق اورگردن کو کاٹ دو )

20 ـ «وَاَزِم الشهوات والخساسة والدنائة والافعال الذميمة عند رمى الجمرات ».

(رمی جمرات کے دوران شہوات نفسانی ،پست اور برے کاموں کو رمی کرو )

21 ـ «واحلق العيوب الظّاهرة والباطنَه بحلق شعرِک وادخل فى امان اللهِ فى كَنفِه وسِرّهِ وكَلاءَتِهِ مِنْ متابعةِ مرادک بدخولک الحرم ».( حلق (سر تراشنا )کرتےوقت اپنے عیوب کو دور کرنے کی نیت کرنا اور خدا کی  رحمت اور بخشش میں داخل ہو جا نا اور اپنے نفس کی خواہشات، گناہ اور حرام چیزوں کے پیچھے نہ جا نا) 

22 ـ «وَزُرِ الْبيتِ مُتَحقّقاً لتعظيم صاحِبِه ومَعْرِفَةِ جَلالِهِ وسلطانِه ».  (خدا کے گھر جاکر اس گھر کے مالک کی شان ، خودمختاری اور عظمت کو جانو)۔

23 ـ «وَاَسْتَلَمِ الحَجر رِضاءً بِقسْمَتِه وخضوعاً لِعِزَّتِه » (حجر اسود  پر ہاتھ رکھو در حالیکہ تم الہی تقسیم پر راضی ہو اس کی عزت اور جلال کے سامنے خضوع اور خشوع کی خاطر  

24 ـ «وَوَدِّعْ ماسِواه بطواف الوداع ».

(اور جب طواف وداع  کا وقت آئے تو خدا کے سوا ہر چیز کو خدا حافظ کہو )۔

25 ـ «وَاَصِفْ روحکَ وسِرِّکَ لِلِقاء الله يَوْمَ تَلْقاهُ بوُقوفِکَ عَلَى الصّفا».

 (صفاکے پہاڑ پر کھڑے ہو کے خدا سے ملاقات اور اس کی دیدارکے لئے اپنی روح اوروجود کو جلأ اور صفأ عطا کرو جس دن تم اسے دیکھو گے(قیامت کے دن )۔  

26 ـ «وكُنْ ذا مُرُوَّةٍ من الله نقيّآ اوصافک عند المروة ».

(مروہ کے پہاڑپر کھڑے ہو کر خدا کے پاس صاحب مروّت اور پاک و پاکیزہ بن جا ؤ)

27 ـ «واَسْتَقِمْ عَلى شرطِ حَجّتِکْ وَوفاءِ عَهْدِکْ اَلذّى عاهَدْتَ به مَعَ ربک وأوجبت لَهُ اِلى يَوْم القيامة ».

(ا ور قائم رہواس شرط پر جو تم نے خدا کے ساتھ باندھی ہے   اور خد اسے جو عہد کیا ہے  قیامت تک اس  عہدکا وفا کرو )۔

 گناہوں سے ہمیشہ دوری کے ذریعے اللہ  تعالیٰ کے حضور صاحب عزت اور مروّت بن جاؤ ۔       (وَللهِِ عَلَى النّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ)[1]  

حج کی رسومات کے دوران خدا نے اپنے رسول کوکسی سنت کی وضاحت نہیں کی۔سوائے موت قبر وبعث وقيامت کےبارے میں بتایاہے اور ثابت قدمی کی تلقین کی ہے، اور شروع سے آخر تک ان سب میں عقلمندوں کے لئےبہت سارے اشارات  موجود ہیں۔



[1] . سورہ  آل عمران ، آيه 97.