سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

◊ زینب پیغام رسان عاشورا - استاد محمد محمدی اشتهاردی ترجمه سید حسن بخاری

ماہ صفر (جو کہ کربلا کے شہداء کے پیغام کے ابلاغ کا مہینہ ہے )کی مناسبت سے اس عظیم اور باجلال خاتون کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو حقیقت میں تحریک عاشورا کی غرض و غایت کو بیان کرنے اور اس تحریک کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے والی خاتون ہیں، اور اس حالت میں کہ جب بھائی کی جدائی اور قید و بند کی عظیم مصیبتیں آپ کا مقدر بنیں تو آپ نے ہر فرصت سے فایدہ اٹھاتے ہوئے تحریک عاشورا کے پیغام اور اہداف کو سب پر واضح کیا اور ستمگروں کے ظلم و ستم کو فاش کیا۔ 
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے عصر عاشور ایک دلیر خاتون کی مانند کمر ہمت باندھی اور انواع و اقسام کے طوفانوں اور حادثات کے سامنے مضبوطی سے کھڑی ہو گئیں۔ آپ تھیں جنہوں نے تحریک عاشورا کے اس نونھال شجر کی پرورش کی، آپ اس تحریک کے پیغام کو کوفہ شام اور جہاں بھی گئیں اپنے ساتھ لے گئیں۔ آپ ہی وہ خاتون ہیں جنہوں نے ہجرت میں بھی نہ تھکنے والی جدوجہد سے اس شجر کی پرورش کی۔ 
اگر تحریک عاشورا کا آغاز امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد کا نتیجہ ہے تو اس تحریک کی اتنے احسن انداز میں پرورش حضرت زینب(سلام الله علیها) کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ آپ ہی نے اس تحریک کے زندگی بخش پیغامات کودنیا والوں تک پہنچایا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پیامبر اسلام ﷺ نے حضرت زینب (سلام الله علیها) کی صفات کو حضرت خدیجۃ الکبری(سلام الله علیها) سے تشبیہ دی ہے۔ جس وقت پیامبر اسلام ﷺ کو حضرت زینب(سلام الله علیها) کی ولادت کی خبر دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا "نومولود کو میرے پاس لاو" جب حضرت زینب(سلام الله علیها) کو آپ حضرتﷺ کے پاس لایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا "یہاں موجود اور غیرموجود سب کو وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ اس بچی کا بہت زیادہ احترام کریں بے شک یہ بچی شبیہ حضرت خدیجہ(سلام الله علیها) ہے1
آنحضرتﷺ کیطرف سے دی جانے والی اس تشبیہ میں ایک گہرا راز چھپا ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ جس طرح حضرت خدیجہ(سلام الله علیها) کا پر برکت وجود اسلام کے شجر کے لئے پر برکت اور بہت فائدہ مند تھا، جیسے آپ نے ایک ماں کی طرح اسلام کے اس شجر کی خدمت کی اور اس کی پرورش کے لئے بڑے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اسی طرح حضرت زینب(سلام الله علیها) نے بھی اپنی نانی حضرت خدیجہ(سلام الله علیها) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی خدمت اور شجر اسلام کی پرورش میں اسلام کی نجات کے لئے ہونے والے تاریخ کے اس عظیم سانحہ عاشورا پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
زینب(سلام الله علیها) وہ شخصیت ہیں جن کا نام رکھنے کے موقع پر پیامبر اسلامﷺ نے تاخیر کی تاکہ آپ کا نام خدا کی طرف سے عطا ہو جبرائیل پیامبر گرامی کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ خداوند کا درود و سلام ہو آپ پر اس بچی کا نام زینب(سلام الله علیها) رکھ دیں چونکہ یہ نام لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے2
زینب(سلام الله علیها) دو کلموں" زین" اور " اب "سے مرکب ہے جس کا معنی والد کی زینت کے ہیں۔ یہ نام اس بات کا عکاس ہے کہ حضرت زینب(سلام الله علیها) کا کردار و رفتار اپنے والد حضرت علی(علیه السلام) کی زینت اور سرفرازی کا باعث ہے۔ ہم اس مقایسہ میں حضرت زینب(سلام الله علیها) کی عظمت پر بھی ایک نظر ڈالیں گے چونکہ حضرت علی(علیه السلام) کا وجود اسلام کے لئے اتنا پر برکت تھا کہ آپ پیامبر گرامیﷺ کے تنہا حامی،سب سے پہلے ایمان لانے والے،دین اسلام کے سب سے عظیم فدا کار حتی یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں اسلام پیامبر گرامیﷺ کے اخلاق حضرت علی(علیه السلام) کی تلوار اور حضرت خدیجہ(سلام الله علیها) کے مال سے پھیلا ہے۔ لہذا حضرت زینب(سلام الله علیها) اس قدر اپنے والد گرامی حضرت علی(علیه السلام) کے نزدیک تھیں کہ آپ کا رفتار و کردار حضرت علی(علیه السلام) کے رفتار و کردار کو آراستہ کرتا تھا اور حضرت علی(علیه السلام) کی سرفرازی اور سر بلندی کا موجب تھا۔
حضرت زینب(سلام الله علیها) کا بچپن اور زندگی کا عرفانی پہلو:
ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کی شخصیت کی تشکیل اور تکمیل میں تین عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ۱۔ وراثت ۲۔ تربیت ۳۔ ماحول 
یہ تینوں عناصر حضرت زینب(سلام الله علیها) کی شخصیت کی پرورش میں مکمل طور پر تاثیر گزار تھے۔ آپ نے ساری اقدار والد گرامی حضرت علی(علیه السلام) اور مادر گرامی حضرت فاطمہ(سلام الله علیها) سے ورثہ میں پائی تھیں۔ آپ نے ان دو بزرگوار شخصیتوں کے زیر سایہ پرورش پائی۔ آپ(سلام الله علیها) نے ایسے ماحول میں پرورش پائی کہ انس و مہربانی اور فضائل و کمالات کا مرکز تھا۔ آپ(سلام الله علیها) نے مدینہ کے سب سے ممتاز خاندان نبوت اور اس کے مہذب افرادکے سائے میں پرورش پائی۔ اسی وجہ سے انسانیت کی درخشاں خصوصیات اور اسلامی و انسانی اعلی اقدار آپ کے وجود میں شکوفا تھیں۔ یہ ہی وہ وجہ تھی کہ آپ(سلام الله علیها) نے معنویت کا سالوں پر مشتمل سفر ایک رات میں طے کیا۔ اس حوالے سے حضرت علی(علیه السلام) سے ایک روایت نقل ہے کہ ایک دن آپ نے زینب(سلام الله علیها) کو کہ جب وہ بچی تھیں گود میں لیا، بیٹی سے پیار کرتے ہوئے آپ(علیه السلام) نے فرمایا بیٹا کہو "دو" زینب(سلام الله علیها) نے کوئی جواب نہ دیا حضرت علی(علیه السلام) نے کہا بیٹا تم جواب کیوں نہیں دے رہی؟ جواب دو اور بولو دو، حضرت زینب(سلام الله علیها) نے اپنی خاص مٹھاس بھری زبان سے فرمایا بابا جان جس زبان کو ایک کہنے کی عادت ہو جائے وہ کیسے کلمہ دو ادا کرے "حضرت زینب(سلام الله علیها) کا اشارہ خدا کی وحدانیت کی طرف تھا کہ آپ کے وجود مبارک کے تمام اعضاء و جوارح توحید الہی کی گواہی دے رہے ہوتے"
حضرت علی(علیه السلام) حضرت زینب(سلام الله علیها) کے اس ذو معنی جواب پر بہت خوش ہوئے، آپ(علیه السلام) نے حضرت زینب(سلام الله علیها) کو گلے لگایا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا۔
ایک اور موقع پر حضرت زینب(سلام الله علیها) نے حضرت علی(علیه السلام) سے ایک سوال پوچھا کہ اے بابا جان کیا آپ اپنے بیٹوں سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت علی(علیه السلام) نے اپنی صاحبزادی کے جواب میں فرمایا جی میرے بیٹا، مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تم سے محبت نہ کروں جبکہ تم میرے دل کا ٹکڑا ہو "زینب(سلام الله علیها) اس لحظہ خداوند متعال کی توحید افعالی کی طرف متوجہ تھیں " فرماتی ہیں میرے پیارے بابا جان ایک دل میں دو محبوب کیسے سما سکتے ہیں، محبت خالصتاً صرف خدا کی ذات کے لئے ہے، لطف و مہربانی ہمارے لئے ہے3
آپ(سلام الله علیها) کے اس فصیح و بلیغ شیوہ بیان نے در اصل حضرت علی(علیه السلام) هی کے فرمان کی وضاحت کی کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا ظاہری محبت وہی مہربانی ہے جبکہ حقیقی محبت صرف اور صرف خدا کی ذات سے مربوط ہے۔ حضرت علی(علیه السلام) اس طرح کے سوالات کے ذریعے حضرت زینب(سلام الله علیها) کے ملکوتی مقام کو دوسروں کے لئے بیان فرماتے تھے، اور درست بھی ہے وہ خاتون جو پنج تن آل عبا کے سائے میں پرورش پائے کیونکر نہ ایسی اعلی و ملکوتی صفات کی مالک ہو۔
ایک دن حضرت علی(علیه السلام) کے گھر پر ایک مہمان آیا گھر میں کھانا نہیں تھا حضرت علی(علیه السلام) نے حضرت فاطمہ(سلام الله علیها) سے پوچھا کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے ہے؟ حضرت فاطمہ(سلام الله علیها) نے فرمایا گھر میں ایک عدد روٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اور وہ بھی میں نے اپنی بیٹی زینب(سلام الله علیها) کے لئے رکھی ہے حضرت زینب(سلام الله علیها) اس وقت تقریبا پانچ سال کی تھیں حضرت زینب(سلام الله علیها) نے جب اپنی والدہ گرامی  کی بات سنی تو فرمایا میرے حصے کی روٹی مہمان کو دے دیں، میں صبر کر لوں گی4
بچپن سے ہی عظمت و جلال کے آثار آپ(سلام الله علیها) کے چہرہ مبارک سے عیاں تھے۔ بچپن ہی سے پتہ چل رہا تھا کہ آپ(سلام الله علیها) مستقبل میں ایک با عظمت و ارجمند خاتون کے روپ میں سامنے آئیں گئیں۔ آپ(سلام الله علیها) کا بچپن بتا رہا تھا کہ آپ کا با برکت وجود خدا کے جلووں کی تجلی گاہ قرار پائے گا۔
زینب(سلام الله علیها) عاشور کے آئینے میں:
تحریک عاشورا اور فرہنگ عاشورا کے آغاز اور تکمیل میں حضرت زینب(سلام الله علیها) امام حسین(علیه السلام) کے ساتھ شریک تھیں۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس عظیم تحریک میں امام حسین(علیه السلام) کے بعد سب سے بڑھ کر آپ(سلام الله علیها) شریک تھیں۔ آپ(سلام الله علیها) مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے سرزمین کربلا تک تحریک عاشورا میں امام حسین(علیه السلام) کی مخلص مددگار و یاور تھیں، یہاں تک کہ روز عاشور آپ(سلام الله علیها) نے اپنے دو نوجوان بیٹے محمد و عون اپنے بھائی پر قربان کر دئیے۔ جب امام حسین(علیه السلام) ان دو نوجوانوں کے خون میں غلطاں پیکر میدان سے خیموں کی طرف لائے تو آپ(سلام الله علیها) اپنے خیمے سے باہر نہ آئیں تاکہ آپ کو دیکھ کر امام حسین(علیه السلام) کی پریشانی میں اضافہ نہ ہو جائے، مگر جب حضرت علی اکبر کا پیکر لایا گیا تو آپ اپنے خیمے سے باہر ٹکڑے ہوئے اس جنازے کی طرف دوڑ پڑیں اور اپنے بھائی کے ساتھ ہمنوا ہو گئیں، روایت کے ایک حصے کے مطابق حضرت زینب(سلام الله علیها) امام حسین(علیه السلام) کو تسلی دینے  کی خاطر جلدی سے حضرت علی اکبر کے سرہانے پہنچیں، جب امام حسین(علیه السلام) قتل گاہ پہنچے تو آپ کی نگاہ حضرت زینب(سلام الله علیها) پہ پڑی حضرت زینب(سلام الله علیها) کی یہ تدبیر امام حسین(علیه السلام) کے غم و اندوہ کو کم کرنے میں تاثیر گزار ثابت ہوئی5
حضرت زینب(سلام الله علیها) نے عاشور کے بعد تین اہم اور حساس ذمہ داریوں کو اپنے ذمہ لیا اور بڑے احسن انداز میں نبھایا۔
۱۔ شہداء کربلا کے لواحقین کی سرپرستی۔
۲۔ امام وقت حضرت سجاد(علیه السلام) کی حمایت اور حفاظت ۔
۳۔شہداء کربلا کے پیغام کا ابلاغ۔
حضرت زینب(سلام الله علیها) کے کوفہ میں ابن زیاد کے دربارہ میں خطبے اور شام میں یزید کے سامنے خطبہ غراءاور آپ(سلام الله علیها) کی ہر کوچہ وبازار اور کوہ و دمن میں کی جانے والی قہر آمیز اور عمیق تقریریں ،ستمگروں اور سفاک درندوں پر بجلی بن کر گری اور ان کی سر نوشت کو جلا کر راکھ  کردیا، اور سورج کے نور کی طرح فرہنگ عاشورا کو لوگوں کے لئے روشن کر دیا۔ آپ ہی کے یہ خطبے اور تقریریں تھیں کہ جس نے لوگوں کو عاشورا کے پیغام کی طرف کھینچا۔ گیارہ محرم کے دن جب آپ اپنے بھائی امام حسین(علیه السلام) کے ٹکڑے ہوئے بدن کے پاس آئیں تو آپ(سلام الله علیها) نے بھائی کے بدن کو اپنے ہاتھوں سے تھوڑا اوپر اٹھایا اور فرمایا " «اِلهي تَقَبَّلْ مِنّا هذَا الْقُرْبانَ"6
ترجمہ:خدایا ہماری اس قربانی کو قبول فرما۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا " «اَللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنّا هذَا قَليلَ الْقُرْبانَ؛ "7
ترجمہ:خدایا ہماری اس ادنیٰ سی قربانی کو قبول فرما۔
آپ(سلام الله علیها) کی یہ تعبیر خداوند متعال کی بارگاہ میں شکر و انکساری کا عظیم مظہر ہے۔ اور اس طرح یہ تعبیر دشمن کے قلب پر شہاب ثاقب کی مانند تیز رفتار تیر کی سی تھی۔ آپ(سلام الله علیها) نے اس تعبیر کے ذریعے بتا دیا کہ دشمن یہ خیال نہ کرے کہ ہم اہل بیت پیامبرﷺ خوار و ذلیل ہوئے بلکہ ہم سرفراز ہوئے ہیں چونکہ ہم نے خدا کے لئے یہ قربانی دی ہے۔ 
اسی وجہ سے جب کوفہ کے دربار میں ابن زیاد نے سرزنش کرنے کے انداز میں حضرت زینب(سلام الله علیها) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "تم نے دیکھا خدا نے تمہارے بھائی حسین اور تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟" تو حضرت زینب(سلام الله علیها) نے ابن زیاد کے جواب میں فرمایا "ما رایت الا جمیلا"(میں نے اچھائی اورخوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا)۔ آپ(سلام الله علیها) نے فرمایا یہ وہ لوگ تھے کہ جن کے لئے خداوند متعال نے شہادت جیسا عظیم مقام انتخاب فرمایا تھا، اسی وجہ سے یہ لوگ رضا کارانہ اور آگاہانہ اپنی آرام گاہ کہ طرف گئے ہیں۔ خداوند متعال بہت جلد تمہیں اور ان کو اکٹھا فرماَئے گا تاکہ تمہارے اور ان کے درمیان انصاف کیا جا سکے۔ اب تم ہی سوچو اس انصاف کے فیصلے میں کون کامیاب ہوگا اور کس کی شکست هو گی؟ تیری ماں تیرے غم میں روئے اے مرجانہ کے بیٹے8
حضرت زینب(سلام الله علیها) کے کوفہ میں خطبہ سے چند اقتباسات:
حضرت زینب(سلام الله علیها) نے کوفہ میں دو خطبے دئیے۔ حذیم بن شریک اسدی کہتا ہے میں نے حضرت زینب(سلام الله علیها) کی طرف دیکھا خدا ئے بزرگ کی قسم کہ میں نے اس دن تک اس جیسے جاہ وجلال کی مالک خاتون نہیں دیکھا تھی کہ ایسے دو ٹوک اور شیرین انداز میں بات کر رہی تھیں گویا اس کے الفاظ حضرت علی(علیه السلام) کی زبان سے جاری ہو رہے ہوں۔ حذیم کہتا ہے اس خاتون جلی نے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا خاموش ہو جائیے۔ یہ بات کہنا تھی کہ لوگوں کی سانس جیسے سینے میں رک گئی ہو، اونٹوں اور گھوڑوں کے گلوں میں موجود گھنٹیاں بجنا رک گئیں۔ اس وقت اس خاتون جلی نے خداوند متعال کی حمد و ثناء اور پیامبرﷺاور آپ کے خاندان پر درود سے اپنے خطبے کا آغاز کیا۔
حضرت زینب(سلام الله علیها) کے اس خطبے نے لوگوں کو اس قدر تحت تاثیر لیا کہ ان کے گریہ و فغاں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ سب لوگ غم و حزن میں غرق ہو گئے۔ وہاں موجود لوگ حیرانی کے عالم میں اپنے آپ پر اظہار پشیمانی کرنے لگے کہ کیوں امام حسین(علیه السلام) کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے نہ ہوئے۔
اس خطبے کا ایک حصہ یوں ہے " «يا اَهْلَ الْخَتَلِ وَالْغَدَرِ وَالْخَذَلِ أَتَبْكُون؟... اِنَّما مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكاثَا؛ " 
ترجمہ: اے حیلے گر، بے وفا اور بکھرے ہوئے لوگو کیا تم لوگ ہمارے حال پر گریہ کر رہے ہو؟ تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جو اپنے ہی بنے ہوئے دھاگوں کو بننے کے بعد کھول دیتی ہے۔ تم لوگوں نے عہد باندھا اور پھر اسے توڑ دیا۔
اسی خطبے کے ایک اور حصے میں آپ نے یوں فرمایا " «وَيْلَكُمْ يا اَهْلَ الْكُوفَةِ اَتَدْروُنَ اَيَّ كَبَدٍ لِرَسُولِ اللهِ فَرَيْتُمْ، وَ اَيَّ كَريمَةٍ لَهُ اَبْرَزْتُمْ...؟ "
ترجمہ:وای ہو تم پر اے کوفہ کے لوگو، کیا تم جانتے ہو تم لوگوں نے رسول خدا کے کس جگر پارے کو ٹکڑے کر دیا ہے؟ اور کن با حجاب حرموں کو بے حجاب کر دیا ہے اور ان کےکس خون کو بہایا ہے، اور اس کے کس بااحترام مقام کی توہین کی ہے؟ کیا تم لوگوں کے لئے یہ حیرت انگیز ہے کہ آسمان اس ماجرے پر خون برسائے؟ بے شک آخرت کا عذاب اور شکنجہ بہت ننگ آور ہو گا اور کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ اور تم لوگوں کو جو مہلت دی گئی تھی تم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
زینب(سلام الله علیها) نے اسی خطبے کے آخری حصے میں اپنے پیارے بھائی امام حسین(علیه السلام) کے جانسوز مصائب پر شعر پڑھا اور گریہ کیا، آپ اس دوران اس قدر احساساتی اور منقلب ہو گئی تھیں کہ امام سجاد(علیه السلام) نے ان جملات کے ساتھ آپ کو تسلی دی " «يا عَمَّة! اُسْكُتي اَنْتِ بِحَمْدِاللَّهِ عالِمَةٌ غَيْرُ مَعَلَّمَة، وَ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَة...».9
ترجمہ: اے پھوپھی آپ بحمد للہ عالمہ غیر معلمہ ہیں آپ خود دانا و عالم ہیں صبر کریں اور جان لیں کہ ہمارا گریہ و نالہ چلے جانے والوں کو واپس نہیں لا سکے گا۔
حضرت زینب(سلام الله علیها) نے امام سجاد(علیه السلام) کی اس بات کے احترام میں خاموشی اختیار کی۔
یزید کے سامنے حضرت زینب(سلام الله علیها) کے خطبے سے چند اقتباسات:
یزید کے دربار میں ظاہرا تمام چیزیں یزید کے حق میں جا رہی تھیں مگر جب حضرت زینب(سلام الله علیها) نے خطبہ دیا تو دربار کی ساری فضا تبدیل ہو گئی، اور یزید کی شام کو شام غریباں میں تبدیل کر دیا۔ یہ خطبہ یزید کی ننگ و عار سے بھری زندگی پر جلا کر رکھ دینے والی بجلی کی طرح گرا۔ یہاں حضرت زینب(سلام الله علیها) کے اس خطبے کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کہ آپ نے فرمایا:
" «وَ كَيْفَ يُرْتَجي مُراقَبَةَ ابْنِ مَنْ لَفَظَ فُوهُ اَكْبادَ الاَزْكياء، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماء الشُّهَداء "
ترجمہ:اس شخص  سے کیسے کوئی توقع یا امید رکھی جا سکتی ہے جس کی ماں نے پاک و پاکیزہ افراد کے جگر کو چبایا اور پھر منہ سے باھر پھینک دیا ہو، اور اس کے بدن کا گوشت شہدا کے خون سے بنا ہو۔
یزید اس خطبے سے پہلے اپنے آپ پر فخر کر رہا تھا کہ وہ خندف کے فرزندوں میں سے ہے کہ یزید تیرہویں نسل سے اس سے جا ملتا تھا۔ خندف ایک خیر اندیش خاتون کے طور پر معروف تھی۔ 
حضرت زیبنب(سلام الله علیها) نے اس سلسلے میں یزید سے اسی کی مانند مقابلہ کیا اور فرمایا کہ اپنی نسل کی تیرہویں جد پر ناز نہ کرو بلکہ اپنی نزدیک کی دادی "ہند" معاویہ کی ماں کے بارے سوچو کہ اس نے جنگ احد میں حضرت حمزہ(علیه السلام) کا سینہ چاک کر کے ان کا جگرنکال کر چبا دیا، اور خون خوار کے طور پر معروف تھی تم کیوں دور جاتے ہو۔
" «فَوَاللّهِ ما فَرِيتَ اِلاّ جِلْدَكَ، وَ لا جَزَرْتَ اِلاّ لَحْمَكَ..."
ترجمہ: خدا کی قسم تو نے اپنی چمڑی ادھیڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اپنا گوشت کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اور تو اسی خاندان رسالت کے خون بہانے اور ان کی حرمت کی توہین کے گناہ کے ساتھ رسول خدا کی بارگاہ میں پیش ہو گا، اس وقت کہ جب اللہ سب کو اکھٹا کر کے ان کا حق واپس لے گا۔
" «حَسْبُكَ بِاللّهِ حاكِمَا، وَ بِمُحَمَّدٍ خَصِيما، وَ بِجبْرَئيلَ ظَهِيرا، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ رِكابَ الْمُسْلِمينَ، بِئْسَ لِلظّالِمينَ بَدَلاً"
ترجمہ: اور یہی عذاب تیرے لئے خدا کی عدالت میں ہے۔ خداوند حاکم اور منصف ہے، اور محمد ہماری طرف سے مدعی ہیں، اور حضرت جبرائیل ہمارے مددگار ہوں گے، اور اس وقت جس نے تجھے فریب دیا اور تجھے لوگوں کے اوپر مسلط کیا، سمجھ جائے گا کہ ظالموں اور ستمگروں کے لئے بہت برا بدلا ہے۔
" «وَ لَئِنْ جَرَتْ عَلَيَّ الدَّواهِيُ مُخاطَبَتُكَ، اِنّي لاَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ "
ترجمہ:اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی نے مجھے تم سے بات کرنے پر مجبور کیا مگر میری نظر میں تم بہت حقیر اور پست ہو۔
" «اَلا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بِقَتْلِ حِزْبُ اللّهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّيْطانِ الطُّلَقاء"
ترجمہ:جان لو کہ حیرانی اور تعجب کی بات ہے کہ خداکے لشکر کے افراد شیطان کے لشکر کے افراد (کہ آزاد شدہ غلام ہیں) کے ہاتھوں قتل ہو جائیں۔
" «فَكِدْ كَيْدَكَ، وَاْسَع سَعْيَكَ، وَ ناصِبْ جُهْدَكَ، فَواللّهِ لاتَمْحُوا ذِكْرَنا وَ لاتُمِيتُ وَحْيَنا، وَ لاتُدْرِكُ اَمَدَنا..."
ترجمہ: ہر مکر جوکرنا چاہتے ہو کر لو، ہر اقدام جوکر سکتے ہو کر لو، اور کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہ کرو، خدا کی قسم نہ تم ہمارا نام مٹا سکتے ہو اور نہ ہماری وحی کو خاموش کر سکتے ہو، اور نہ ہمارے مقام کوپہنچ سکتے ہو، اور ہرگز اس ظلم وستم کی ذلت کو اپنے سے دور نہیں کر سکتے ہو۔ تیری رائے کمزور اور تیری حکومت کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں، تیری یہ جمعیت بکھر جائے گی، اور وہ دن "روز قیامت" آن پہنچے گا جب ندا دینے والا ندا دے گا جان لو ستم گروں پر خدا کی لعنت ہے10
حضرت زینب(سلام الله علیها) کے اس خطبے نے یزید کے دربار بلکہ پورے شام کی حالت کو بدل کر رکھ دیا، سب چیزیں دگر گون ہو گئیں، مضبوط دلیلیں اور نفس قدسی حضرت زینب(سلام الله علیها) باعث بنا کہ یزید اور یزیدیوں پر ایسا رعب و وحشت طاری ہو گئی کہ یزید حضرت زینب(سلام الله علیها) کے شعلہ سخن کو ان کے ذہن میں خاموش رکھنے کی ہمت نہ کر سکا، کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ دربار میں موجود افراد حضرت زینب(سلام الله علیها) کے شعلہ ور کلام کے سحر میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ 
اس کے بعد یزید کی ظاہری سیاست عوض ہو گئی وہ ظاہرا پشیمانی کا اظہار کیا کرتا، اور اس گناہ کو ابن زیاد کی گردن پر ڈال دیتا11
یزید نے حکم دیا کہ اہل بیت امام حسین(علیه السلام) کے ساتھ نرمی اور شایستگی سے پیش آیا جائے  اور انہیں احترام کے ساتھ مدینہ راوانہ کیا جائے، یزید نے حکم دیا کہ اونٹوں کے کجاوے زرق برق کے غلافوں سے مزین کیے جائیں، حضرت زینب (سلام الله علیها) جو کہ اعلی فہم و فراست کی حامل تھیں سمجھ گیئں کہ یزید اس طرح کی ظاهری فضا بنا کر شھیدوں کے خون کے اثر کو زایل کرنا چاہتا ہے۔ حضرت زینب (سلام الله علیها) نے بڑی دو ٹوک انداز میں  فرمایا کجاوں پر سیاہ کپڑے ڈالے جائیں تاکہ لوگ جان لیں کہ ہم فرزند زہرا(سلام الله علیها) کے سوگ میں ہیں۔ حضرت زینب (سلام الله علیها) کی اس بات نے لوگوں میں شدید اضطراب اور پریشانی ایجاد کر دی.12
1-  عباسقلی خان سپھر، الطراز المذھب، ص۴۴ شیخ ذبیح اللہ محلاتی، ریاحین الشریعہ،ج۳،ص۳۸
2-  ایضا
3-  آیت اللہ جزائری، الخصائص الزینبیہ،ص۳۵۱
4-  شیخ ذبیح اللہ محلاتی، ریاحین الشریعہ،ج۳ص۶۴
5-  آیت اللہ جزائری، الخصائص الزینبیہ،ص۳۵1
6- علامہ سید عبدالرازاق مقرم،مقتل الحسین،ص۳۷۹
7- علامہ بیر جندی، کبریت الاحمر، ص۳۷۶
8- علامہ طبرسی،اعلام الوری،ص۲۴۷، کامل ابن اثیر،ج۴،ص۸۲
9 - علامہ طبرسی، احتجاج،ج۲،ص۳۱،محدث قمی، نفس المھموم، ص۲۱۵ و۲۱۷
10- سید بن طاووس، لھوف،ص۲۱۵تا۲۱۷، علامہ طبرسی، احتجاج،ج۲،ص۳۴و۳۵
11- عباسقلی خان سپھر، الطراز المذھب، ص۸۰و۸۱
12- ایضا ص۴۸۰