b 20 جمادی الآخر(1436ھ ) ولادت حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہاکے موقع پر
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2025/2/1 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • اعیاد شعبانیہ (1446ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    20 جمادی الآخر(1436ھ ) ولادت حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہاکے موقع پر

    20 جمادی الآخر(1436ھ ) ولادت حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہاکے موقع پر  

    مقدمہ:حضرت زہرا سلام اللہ علیھا  ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت کے لیے  اتنا کافی ہے کہ رسول گرامی اسلام ﷺنے   فرمایا  :فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، [1] آپ (س) کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ امام علیؑ جیسی شخصیت آپ (س)کے وجود پر افتخار کرتی  ہوئی نظر آتی ہیں آپ کی زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی فضیلت نمایاں ہیں آپ کی فضیلت میں قران کریم مدح سرائی اور قصیدہ گوئی میں نظر آتی ہے  آپ ہی کی ذات گرامی کو لیلۃ القدر سے تعبیر کیا گیا ہے ، تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر صادق     علیہ السلام سے روایت ہے کہ انا انزلنا ہ فی لیلۃ القدر میں "لیلۃ "سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ذات گرامی ہےاور" قدر "سے  پروردیگار عالم کی طرف اشارہ  کیا گیا ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے آپ کی حقیقی معرفت تک رسائی ممکن نہیں بنی نوع انسان آپ کی معرفت سے عاجز ہے۔

    حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی علمی فضیلت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ آپ فرشتوں سے ہم کلام تھیں آپ کا قلب علی  ؑ و پیغمبر  کے قلوب کی طرح نورانی تھا  آپ جب تک زندہ رہی  امام وقت کی پشت پناہی میں ایک مضبوط پہاڑ کی مانند کھڑی رہی اور ایک لمحے  کے لیے  بھی ولایت کو تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیا  ۔ آپ کی فضیلت بشریت کی زبان سے ممکن نہیں  آپ اولین وآخرین میں تمام عورتوں سےافضل ہیں اور آپ کی ذات گرامی عالمین کے لیے نمونہ ہےآپ کی عظمت کا موازنہ کسی  سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آپ  کی عظمتوں کوبیان کیا جا سکتا ہے ۔

    جناب سیدہ کی تاریخ ولادت :

    شہزادی کونین کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہے لیکن  تاریخ اسلام کے بہت سے راوی جیسے شیخ کلینی، ابن شھر اشوب ،شیخ طوسی  ،شیخ طبرسی  ،علامہ مجلسی  اور  اہلیبت کی  روایت کے مطابق آپ سلام اللہ علیھا بعثت کے پانچوں سال 20 جمادی الثانی بروز جمعہ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئی[2]۔

    آپ سلام اللہ علیھا کے والدین:

    آپ کے والد ماجد سرکار دو عالم حضرت محمد ﷺ اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ہے  ایسے  باپ  جن کی تعریف کرنے اور اوصاف و کمال لکھنے سے  قلم  عاجز ہے جن کے اوصاف وکمال کے قصیدے قرآن کریں  ہم ان کی تعریف کیا کرے جن کی تعرف دشمن نے بھی کی ہو۔آپ کی والدہ ماجدہ وہ خاتون ہیں جو اسلام سے  پہلے بھی قریش کی سب سے با عفت  اور نیک خاتون میں شمار ہوتی تھیں آپ اسلام کی وہ پہلی خاتون ہے جس نے اسلام لانے کے بعد اپنا سب کچھ اسلام کی ترویج کی خاطر وقف کر دیا تاریخ اسلام میں آپ کی وفاداری  کو کھبی فراموش نہیں کیا جا سکتا   یہی وجہ تھی کہ پیغمبر گرامی اسلام نے جب تک آپ زندہ  رہی کسی اور سے شادی نہیں کی اور ہمیشہ آپ کی تعریف کرتے رہتے تھے ۔عایشہ کہتی  ہے ایک با ر میں نے  رسول گرامی سے کہا  : آپ اس کی تعریف کرتے رہتے ہیں وہ تو صرف ایک بیوہ  و بوڑھی عورت تھی، یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے  کہ پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا: خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں تھی۔ جب سب لوگ کافر تھے اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں جب سب نے رخ موڑ لیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی۔ حضر ت زہرا یسے ولدین کی  سایہ میں رہی جن کی توصیف کرنے کے  لیے الفاظ کم ہیں۔

    ہماری شادیوں اور سیدہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں فرق:

    ہم سب کو معلوم ہے ہماری شادیوں کی تقریب کس طرح انجام پاتی  ہے اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہے کہ ہم اللہ کے رسول اور ان کی اہل بیت کے طور طر یقے کو کس طریقہ سے انجام دیتے ہیں بتانا تو صرف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو محبان اہلبیت  ہونے کا دعوای کرتے ہیں کیا ہم اپنی رسومات کو ان کے طریقوں کے مطابق انجام دیتے ہیں  ہم نے کھبی سوچا ہے کہ ہماری بیٹیاں سیدہ کی خاک پا کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔پھر اُس رسول کی بیٹی کی شادی نہایت ہی سادگی سے ہو اور ہمیں اپنے بیٹیوں کی شادی سادگی کے ساتھ منانے میں شرم محسوس کیوں ہوتی ہے، کیا ہم رسول اکرم سے زیادہ عزت دار ہےکہ سادگی سے ہماری عزت کو خطرہ لاحق ہےآپ اگر چاہتے تو اپنی بیٹی کے لئے بہت کچھ دے سکتے تھے مگرآپ نے صرف امت کی   آسانی کی خاطرآسان ترین راستے کو اپنایاتا کہ ہم جب اپنی بیٹیوں کی شادی کرے تو آپؐ کی بیٹی کو یاد کریں جس سے  ہمیں اپنے غریبی اور مسکینی ہونے   پر رونا نہیں آئے گااسلام نے اپنی حیثیت سے آگے بڑنے کا حکم نہیں دیا  اسلام نے قرضے لے کر شادی کرنےکا حکم نہیں دیا  جس سے بیٹی کی شادی تو ہو جاتی ہے مگر افسوس والدین ہمیشہ کے لیے فروخت ہو جاتے ہیں یہ درست ہے ہم اپنی بیٹی سے پیار کرتے ہے مگر خاتم الانبیا سے بڑھ کر کوئی اپنی بیٹی سے محبت نہیں کر سکتا۔

    مصائب و الام میں صبر:

    قران مجید فرماتا ہے : ان اللہ مع الصابرین''یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ، اگر ہم جناب سیدہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہےکہ  آپ کی زندگی میں بہت سے مصائب اور مشکلات پیش آئیں  لیکن آپ نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شوہر کا ساتھ دیا اور کھبی خوف زدہ نہیں ہوئی  اور دنیا کی تمام آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر راہ حق میں مصائب پڑے تو گھبرانا نہیں چاہیے اگر رب ساتھ ہے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ اللہ ہمیشہ مظلوموں اور صابروں کا ساتھ دیتا ہے۔[3]

    زوجہ  شوہر کے لئے سکون ہے:

    شہزادی کونین (س) شادی کے بعد " انا خلقناکم ازواجا لتسکنوا الیھا،، کا حقیقی مصداق بنی یعنی آپ کی ذات گرامی امیر المومنین ؑ کے لئے باعث آرامش اور سکون تھی  شہزادی کی شہادت کے بعد آپ نے شہزادی سے خطاب کرتے ہوے ارشاد فرمایا: اے بنت محمد!مجھے سکون کیسے ملے گا تم ہی تو میرا سکون اور سبب اطمینان  ہے  ۔

    ایک دوسرے کے عیب کو چھپانا:

    ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری اور ضعف پایا جاتا ہے اور اس کمزوری اور عیب کو آشکار نہ کرنا ایک خانوادہ کی کامیابی کی علامت ہے قرآن مجید نے بھی اس بارے میں بہت ہی پیارا جملہ بیان فرمایا:(ھن لباس لکم وانتم لباس لھن)[4] زوجہ تمہارے لئے لباس ہے اور تم ان کے لئے۔  اور لباس کا کام یہ ہوتا ہے کہ بدن کے اندر موجود عیب کو دوسروں سے  چھپائیں۔ حضرت علیؑ اور حضرت زہر ا (س) کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ زندگی میں کبھی  ایک دوسرے کے عیب اور کمزوری کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کریں، بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ ایک دوسرے کی اچھائی کو دوسروں کے سامنے بیان کرے ،حضرت علی اور جناب فاطمہ کی زندگی میں ہمیں اس بارے میں ایک خاص درس ملتا ہے وہ اس طرح کہ شادی کے بعد  پیغمبر اسلامؐ نے آپ دونوں کی زندگی کے بارے میں سوال کیا ۔پہلے حضرت زہرا (س )سے پوچھا   اپنے شوہر کو کیسا پایا؟فرماتی ہیں :اے بابا جان بہترین  شوہر پایا،اسی طرح مولا علی سے جب آپ پوچھتے ہیں تو مولا فرماتے ہیں:بہتریں مددگار اطاعت خداوند میں،[5]

    شوہر کی استظاعت سے بڑھ کر سوال نہ کرنا:

    شہزادی کونین نے اپنی پوری زندگی میں حضرت علی سے کسی ایسی چیز کی فرمائش نہیں کی جس کو مولاعلی پورا نہ کر سکے،حضرت فاطمہ حقوق خاوند سے جس درجہ واقف تھیں کوئی بھی واقف نہ تھا۔ انھوں نے ہر موقع پر اپنے شوہر حضرت علیؑ کا لحاظ و خیال رکھا  انھوں نے کبھی ان سے کوئی ایسا سوال نہیں کیا جس کے پورا کرنے سے حضرت علیؑ عاجز رہے ہوں،ایک مرتبہ حضرت فاطمہؑ بیمار ہوئیں تو حضرت علیؑ نے ان سے فرمایا کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ، حضرت سیّدہ (سلام اللہ علیھا ) نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت علیؑ نے اصرار کیا تو عرض کی، میرے پدرِ بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ممکن ہے آپ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی ؑنے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ میں کبھی کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا  اور دونوں نے باہم  خوشگوار زندگی گزاری ۔

    نعمت خداوند پر شکر گزار رہنا:

    جناب سیدہ  (س) اپنے گھر کی مالی کمزوری دیکھ کر نہ  ملال ہو ئی اور نہ پریشان  بلکہ ہمیشہ شکر الہی بجا لایا کرتی تھی آپ نے ہمیشہ صبر استقامت اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی  اانتہائی افلاس اور غربت کی حالتوں میں بھی اطمینان اور سکون کی زندگی گزاری  ہمہشہ نہایت خاموشی استقلال خندہ پیشانی سے  تما م مشکلوں کو تحمل فرمایا  اور کھبی ان گھریلو اور ذاتی ضرورتوں کی تنگی کی شکایت کا  اظہار نہیں کیا  ور خدا کی دی ہوئی  نعمتوں پر شکر گزار رہی نہ صرف شکر گزار رہی بلکہ ان حالات میں بھی ایثار وقربانی کی اعلیٰ مثالیں دکھائی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جناب فاطمہ (س) غریب ہیں۔



    [1] ۔ شیخ طوسی ،امالی ج 1 ص 24

    [2] حضرت فاطمہ از ولادت تا شہادت،تالیف  سید محمد کاظم قزوینی

    [3] ا۔لقران،سورہ بقرہ،ایہ 153

    [4] ۔، بقرہ،187

    [5] ۔،مجلسی  بحارالانوار ،ص 134