Deprecated: __autoload() is deprecated, use spl_autoload_register() instead in /home/net25304/al-alawy.net/req_files/model/htmlpurifier-4.4.0/HTMLPurifier.autoload.php on line 17
15 رجب (1436ھ)وفات حضرت زینب سلام اللہ علیہاکےموقع پر
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/9/11 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    15 رجب (1436ھ)وفات حضرت زینب سلام اللہ علیہاکےموقع پر


    15 رجب (1436ھ)وفات حضرت زینب سلام اللہ علیہاکےموقع پر

    آپ کے کوفہ میں خطبہ سے چند اقتباسات:

    حضرت زینب(س) نے کوفہ میں دو خطبے دئیے۔ حذیم بن شریک اسدی کہتا ہے میں نے حضرت زینب(س) کی طرف دیکھا خدا ئے بزرگ کی قسم کہ میں نے اس دن تک اس جیسے جاہ وجلال کی مالک خاتون نہیں دیکھا تھاکہ ایسے دو ٹوک اور شیرین انداز میں بات کر رہی تھیں گویا اس کے الفاظ حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے جاری ہو رہے ہوں۔ حذیم کہتا ہے اس خاتون جلی نے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا خاموش ہو جائیے۔ یہ بات کہنی تھی کہ لوگوں کی سانس جیسے سینے میں رک گئی ہو، اونٹوں اور گھوڑوں کے گلوں میں موجود گھنٹیاں بجنا رک گئیں۔ اس وقت اس خاتون جلی نے خداوند متعال کی حمد و ثناء اور پیامبر(ص)اور آپ کے خاندان پر درود سے اپنے خطبے کا آغاز کیا۔

    آپ کے اس خطبے نے لوگوں کو اس قدر تحت تاثیر لیا کہ ان کے گریہ و فغاں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ سب لوگ غم و حزن میں غرق ہو گئے۔ وہاں موجود لوگ حیرانی کے عالم میں اپنے آپ پر اظہار پشیمانی کرنے لگے کہ کیوں امام حسین(ع) کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے نہ ہوئے۔

    اس خطبے کا ایک حصہ یوں ہے " «يا اَهْلَ الْخَتَلِ وَالْغَدَرِ وَالْخَذَلِ أَتَبْكُون؟... اِنَّما مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكاثَا؛ "

    ترجمہ: اے حیلے گر، بے وفا اور بکھرے ہوئے لوگو کیا تم لوگ ہمارے حال پر گریہ کر رہے ہو؟ تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جو اپنے ہی بنے ہوئے دھاگوں کو بننے کے بعد کھول دیتی ہے۔ تم لوگوں نے عہد باندھا اور پھر اسے توڑ دیا۔

    اسی خطبے کے ایک اور حصے میں آپ نے یوں فرمایا " «وَيْلَكُمْ يا اَهْلَ الْكُوفَةِ اَتَدْروُنَ اَيَّ كَبَدٍ لِرَسُولِ اللهِ فَرَيْتُمْ، وَ اَيَّ كَريمَةٍ لَهُ اَبْرَزْتُمْ...؟ "

    ترجمہ:وای ہو تم پر اے کوفہ کے لوگو، کیا تم جانتے ہو تم لوگوں نے رسول خدا کے کس جگر پارے کو ٹکڑے کر دیا ہے؟ اور کن با حجاب حرموں کو بے حجاب کر دیا ہے اور ان کےکس خون کو بہایا ہے، اور اس کے کس بااحترام مقام کی توہین کی ہے؟ کیا تم لوگوں کے لئے یہ حیرت انگیز ہے کہ آسمان اس ماجرے پر خون برسائے؟ بے شک آخرت کا عذاب اور شکنجہ بہت ننگ آور ہو گا اور کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ اور تم لوگوں کو جو مہلت دی گئی تھی تم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

    زینب(س) نے اسی خطبے کے آخری حصے میں اپنے پیارے بھائی امام حسین(ع) کے جانسوز مصائب پر شعر پڑھا اور گریہ کیا، آپ اس دوران اس قدر احساساتی اور منقلب ہو گئی تھیں کہ امام سجاد(ع) نے ان جملات کے ساتھ آپ کو تسلی دی " «يا عَمَّة! اُسْكُتي اَنْتِ بِحَمْدِاللَّهِ عالِمَةٌ غَيْرُ مَعَلَّمَة، وَ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَة...».[1]

    ترجمہ: اے پھوپھی آپ بحمد للہ عالمہ غیر معلمہ ہیں آپ خود دانا و عالم ہیں صبر کریں اور جان لیں کہ ہمارا گریہ و نالہ چلے جانے والوں کو واپس نہیں لا سکے گا۔

    حضرت زینب(س) نے امام سجاد(ع) کی اس بات کے احترام میں خاموشی اختیار کی۔

    یزید کے سامنے حضرت زینب(س) کے خطبے سے چند اقتباسات:

    یزید کے دربار میں ظاہرا تمام چیزیں یزید کے حق میں جا رہی تھیں مگر جب حضرت زینب(س) نے خطبہ دیا تو دربار کی ساری قضا تبدیل ہو گئی، اور یزید کی شام کو شام غریباں میں تبدیل کر دیا۔ یہ خطبہ یزید کی ننگ و عار سے بھری زندگی پر جلا کر رکھ دینے والی بجلی کی طرح گرا۔ یہاں حضرت زینب(س) کے اس خطبے کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کہ آپ نے فرمایا:

    " «وَ كَيْفَ يُرْتَجي مُراقَبَةَ ابْنِ مَنْ لَفَظَ فُوهُ اَكْبادَ الاَزْكياء، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماء الشُّهَداء "

    ترجمہ:اس شخص  سے کیسے کوئی توقع یا امید رکھی جا سکتی ہے جس کی ماں نے پاک و پاکیزہ افراد کے جگر کو چبایا اور پھر منہ سے باھر پھینک دیا ہو، اور اس کے بدن کا گوشت شہدا کے خون سے بنا ہو۔

    یزید اس خطبے سے پہلے اپنے آپ پر فخر کر رہا تھا کہ وہ خندف کے فرزندوں میں سے ہے کہ یزید تیرہویں نسل سے اس سے جا ملتا تھا۔ خندف ایک خیر اندیش خاتون کے طور پر معروف تھی۔

    حضرت زیبنب(س) نے اس سلسلے میں یزید سے اسی کی مانند مقابلہ کیا اور فرمایا کہ اپنی نسل کی تیرہویں جد پر ناز نہ کرو بلکہ اپنی نزدیک کی دادی "ہند" معاویہ کی ماں کے بارے سوچو کہ اس نے جنگ احد میں حضرت حمزہ(ع) کا سینہ چاک کر کے ان کا جگرنکال کر چبا دیا، اور خون خوار کے طور پر معروف تھی تم کیوں دور جاتے ہو۔

    " «فَوَاللّهِ ما فَرِيتَ اِلاّ جِلْدَكَ، وَ لا جَزَرْتَ اِلاّ لَحْمَكَ..."

    ترجمہ: خدا کی قسم تو نے اپنی چمڑی ادھیڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اپنا گوشت کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اور تو اسی خاندان رسالت کے خون بہانے اور ان کی حرمت کی توہین کے گناہ کے ساتھ رسول خدا کی بارگاہ میں پیش ہو گا، اس وقت کہ جب اللہ سب کو اکھٹا کر کے ان کا حق واپس لے گا۔

    " «حَسْبُكَ بِاللّهِ حاكِمَا، وَ بِمُحَمَّدٍ خَصِيما، وَ بِجبْرَئيلَ ظَهِيرا، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ رِكابَ الْمُسْلِمينَ، بِئْسَ لِلظّالِمينَ بَدَلاً"

    ترجمہ: اور یہی عذاب تیرے لئے خدا کی عدالت میں ہے۔ خداوند حاکم اور منصف ہے، اور محمد ہماری طرف سے مدعی ہیں، اور حضرت جبرائیل ہمارے مددگار ہوں گے، اور اس وقت جس نے تجھے فریب دیا اور تجھے لوگوں کے اوپر مسلط کیا، سمجھ جائے گا کہ ظالموں اور ستمگروں کے لئے بہت برا بدلا ہے۔

    " «وَ لَئِنْ جَرَتْ عَلَيَّ الدَّواهِيُ مُخاطَبَتُكَ، اِنّي لاَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ "

    ترجمہ:اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی نے مجھے تم سے بات کرنے پر مجبور کیا مگر میری نظر میں تم بہت حقیر اور پست ہو۔

    " «اَلا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بِقَتْلِ حِزْبُ اللّهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّيْطانِ الطُّلَقاء"

    ترجمہ:جان لو کہ حیرانی اور تعجب کی بات ہے کہ خداکے لشکر کے افراد شیطان کے لشکر کے افراد (کہ آزاد شدہ غلام ہیں) کے ہاتھوں قتل ہو جائیں۔

    " «فَكِدْ كَيْدَكَ، وَاْسَع سَعْيَكَ، وَ ناصِبْ جُهْدَكَ، فَواللّهِ لاتَمْحُوا ذِكْرَنا وَ لاتُمِيتُ وَحْيَنا، وَ لاتُدْرِكُ اَمَدَنا..."

    ترجمہ: ہر مکر جوکرنا چاہتے ہو کر لو، ہر اقدام جوکر سکتے ہو کر لو، اور کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہ کرو، خدا کی قسم نہ تم ہمارا نام مٹا سکتے ہو اور نہ ہماری وحی کو خاموش کر سکتے ہو، اور نہ ہمارے مقام کوپہنچ سکتے ہو، اور ہرگز اس ظلم وستم کی ذلت کو اپنے سے دور نہیں کر سکتے ہو۔ تیری رائے کمزور اور تیری حکومت کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں، تیری یہ جمعیت بکھر جائے گی، اور وہ دن "روز قیامت" آن پہنچے گا جب ندا دینے والا ندا دے گا جان لو ستم گروں پر خدا کی لعنت ہے[2]

    حضرت زینب(س) کے اس خطبے نے یزید کے دربار بلکہ پورے شام کی حالت کو بدل کر رکھ دیا، سب چیزیں دگر گون ہو گئیں، مضبوط دلیلیں اور نفس قدسی حضرت زینب(س) باعث بنا کہ یزید اور یزیدیوں پر ایسا رعب و وحشت طاری ہو گئی کہ یزید حضرت زینب(س) کے شعلہ سخن کو ان کے ذہن میں خاموش رکھنے کی ہمت نہ کر سکا، کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ دربار میں موجود افراد حضرت زینب(س) کے شعلہ ور کلام کے سحر میں گرفتار ہو چکے ہیں۔

    اس کے بعد یزید کی ظاہری سیاست عوض ہو گئی وہ ظاہرا پشیمانی کا اظہار کیا کرتا، اور اس گناہ کو ابن زیاد کی گردن پر ڈال دیتا[3]

    یزید نے حکم دیا کہ اہل بیت امام حسین(ع) کے ساتھ نرمی اور شایستگی سے پیش آیا جائے  اور انہیں احترام کے ساتھ مدینہ راوانہ کیا جائے، یزید نے حکم دیا کہ اونٹوں کے کجاوے زرق برق کے غلافوں سے مزین کیے جائیں، حضرت زینب (س) جو کہ اعلی فہم و فراست کی حامل تھیں سمجھ گیئں کہ یزید اس طرح کی ظاھری فضا بنا کر شھیدوں کے خون کے اثر کو زایل کرنا چاہتا ہے۔ حضرت زینب (س) نے بڑی دو ٹوک انداز میں  فرمایا کجاوں پر سیاہ کپڑے ڈالے جائیں تاکہ لوگ جان لیں کہ ہم فرزند زہرا(س) کے سوگ میں ہیں۔ حضرت زینب (س) کی اس بات نے لوگوں میں شدید اضطراب اور پریشانی ایجاد کر دی۔[4]

    آپ کی وفات:

    حضرت زینب سلام اللہ علیہااپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے تقریبا" ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو وفات پائیں ۔ ان کا روضہ اقدس شام کے دارالحکومت دمشق میں ہے۔

     



    [1] علامہ طبرسی، احتجاج،ج۲،ص۳۱،محدث قمی، نفس المھموم، ص۲۱۵ و۲۱۷

    [2] سید بن طاووس، لھوف،ص۲۱۵تا۲۱۷، علامہ طبرسی، احتجاج،ج۲،ص۳۴و۳۵

    [3] عباسقلی خان سپھر، الطراز المذھب، ص۸۰و۸۱

    [4] ایضا ص۴۸۰