سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • 10 رجب (1444ھ)ولادت باسعادت امام محمدتقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم رجب (1444ھ)ولادت امام محمدباقرعلیہ السلام کےموقع پر
  • ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
  • رحلت حضرت محمداور امام حسن ؑ وامام رضا ؑکی شہادت کے موقع پر
  • 25محرم(1444ہجری)شہادت امام سجاد علیہ السلام کے موقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    25رجب (1438ھ)شہادت امام کاظم علیہ السلام کےموقع پر


    امام موسیٰ كاظم  علیہ السلام كی شہادت

    "انتم الصراط الاقوم والسبیل الاعظم وشھداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء" (زیارت جامعہ كبیرہ) 
    "آپ ہی صراط اقوام (بہت ہی سیدھا راستہ) ہیں، عظیم ترین راستہ (وسیلہ) اس فانی دنیا كے گواہ، باقی رہنے والی دنیا كے شفیع ہیں۔"
    چونكہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالیٰ كے حكم اور مشیت سے زندہ ہیں ان كے علاوہ باقی آئمہ طاہرین علیہم السلام جام شہادت نوش فرما چكےہیں۔

    ان میں سے كوئی امام بھی طبعی موت یا كسی بیماری كی وجہ سے اس دنیا سے نہیں گیا۔ ہمارے آئمہ اطہار شہادت كو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارا ہر امام ہمیشہ اپنے لیے خدا سے شہادت كی دعا كرتا ہے۔ پھر انھوں نے جو ہمیں دعائیں تعلیم فرمائیں ہیں ان میں سے بھی شہادت سب سے پسندیدہ چیز متعارف كی گئی ہے جیسا كہ ہمارا آقا و مولا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ میں بستر كی موت كو سخت ناپسند كرتا ہوں۔ مجھ پر ہزار ٹوٹ پڑنے والی تلواریں اور ہزاروں زخم اس سے كہیں بہتر ہیں كہ میں آرام سے بستر كی موت مروں۔ ان كی دعاؤں میں یہی التجاء ہے، تمناؤں میں یہی تمنا، آرزوؤں میں یہی آرزو، مناجات میں یہی دعا ہے كہ خدا ہمیں شہادت كے سرخ خون سے نہلا كر اپنی ابدی زندگی عطا فرما، غیرت رحمیت، حریت، و عظمت میری زندگی كا نصب العین ٹھرے۔ زیارت جامعہ كبیرہ میں ہم پڑہتے ہیں كہ
    "انتم الصراط الاقوم، والسبیل الاعظم و شھداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء"
    "كہ آپ بہت ہی سیدھا راستہ، عظیم ترین شاہراہ آپ اس جہان كے شہید اور اس جہان كے شفاعت كرنے، بخشوانے والے ہیں۔
    لفظ شہید امام حسین علیہ السلام كی ذات گرامی كے ساتھ وقف كیا گیا ہے ہم عام طور پر جب بھی آپ كا نام لیتے ہیں"تو الحسین الشہید"كہتے ہیں اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام كے ساتھ صادق اور امام موسیٰ ابن جعفر كا لقب موسیٰ الكاظم اور سید الشہداء كا لقب حضرت امام حسین علیہ السلام كے ساتھ خاص ہے۔ اس كا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے كہ ائمہ طاہرین علیہم السلام میں سے امام حسین علیہ السلام ہی شہید ہوئے ہیں؟ اس طرح موسیٰ ابن جعفر كے ساتھ كاظم كا لقب ہے اس كا مقصد یہ نہیں ہے كہ صرف وہی كاظم ہیں، امام رضا علیہ السلام كے ساتھ الرضا كا لقب خاص ہے اس كا یہ معنی نہیں كہ دوسرے ائمہ رضا نہیں ہیں اگر امام جعفر صادق كو صادق  علیہ السلام كہتے ہیں تو اس كا یہ مفہوم نہیں ہے كہ دوسرے ائمہ صادق نہیں ہیں۔ یہ سارے كے سارے محمد (ص) بھی ہیں اور علی  علیہ السلام بھی ان كی زندگی ایك دوسرے كی زندگی كا عكس ہے۔ تاثیر بھی ایك، خوشبو بھی، ایك سلسلہ نسب بھی ایك مقصد حیات بھی ایك۔ 

    امام علیہ السلام مختلف زندانوں میں

    حضرت امام موسی كاظم كو بغداد لایا گیا یہاں پر فضل بن ربیع مشہور دروغہ تھا۔ امام  علیہ السلام كو اس كے سپرد كر دیا گیا۔ اس پر تمام خلفاء اعتماد كرتے تھے۔ 
    ہارون نے اس سے خاص تاكید كی تھی كہ امام علیہ السلام كے ساتھ كسی قسم كی نرمی نہ برتے بلكہ جتنا ہوسكے ان پر سختی كی جائے لیكن فضل امام كے معصومانہ كردار كو دیكھ كر پسیج گیا اور آپ كا عقیدت مند بن گیا۔ سختی كی بجائے نرمی سے پیش آنے لگا۔ زندان كے كمرے كو ٹھیك كیا اور امام علیہ السلام كو قدرے سہولتیں فراہم كیں۔ جاسوس نے ہارون كو خبر دی كہ امام موسی كاظم فضل بن ربیع كے زندان میں آرام و سكون كے ساتھ زندگی بسر كررہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے كہ زندان نہیں ہے بلكہ مہمان سرا ہے۔ ہارون نے امام علیہ السلام كو اس سے لے كر فضل بن یحییٰ برمكی كی نگرانی میں دے دیا۔ فضل بن یحییٰ بہی كچھ عرصہ كے بعد امام  علیہ السلام سے محبت كرنے لگا۔ ہارون كو جب اس كے رویے كی تبدیلی كی خبر ملی تو سخت غضبناك ہوا اور اپنے جاسوس كو بھیجا كہ جاكر معاملہ كی تحقیق كریں۔ جب جاسوس آئے تو معاملہ ویسا ہی تھا جیسا كہ ہارون كو بتیا گیا تھا۔ہارون فضل برم، كی پر سخت ناراض ہوا اس كا باپ وزیر تھا، یہ ایرانی النسل تھا۔ بہت ہی ملعون شخص تھا۔ اس كو ڈر لاحق ہوا كہ كہیں اس كا بیٹا خلیفہ كی نظروں میں گر نہ جائے، یہ فوری طور پر ہارون كے پاس آیا اور كہا كہ وہ اس كے بیٹے كی غلطی كو معاف كر دے۔ اس كی جگہ پر میں معافی مانگتا ہوں۔ اور میرا بیٹا بھی اپنے كیے پر شرمندہ ہے۔ پھر وہ بغداد آیا امام  علیہ السلام كو اپنے بیٹے كی نگرانی سے لے كر سندی بن شاہك كی نگرانی میں دیا۔ یہ انتہائی ظالم اور سفاك آدمی میں تھا اور مسلمان بھی نہ تھا، اس لیے امام علیہ السلام كے بارے میں اس كے دل ذرا بھر رحم نہ تھا۔ پھر كیا ہوا؟ امام علیہ السلام پر سختی كی جانے لگی اس كے بعد میرے آقا نے كسی لحاظ سے سكون نہیں دیكھا ۔ 

    امام علیہ السلام كی گرفتاری كی وجہ؟

    مامون آپ ؑ   کو اس لیے گرفتار کیا  كہ وہ امام علیہ السلام كی عوام میں غیر معمولی مقبولیت كے باعث آپ سے حسد كرتا تھا اور اس كو یہ بھی ڈر تھا كہ لوگ ہمیں چھوڑ كر امام علیہ السلام كو اپنا مذہبی و سیاسی رہنما نہ بنالیں۔ ہارون دیگر خلفاء كی مانند آل محمد علیہم السلام كے ہر فرد سے ہراساں رہتا وہ اس خدشہ كے تحت ہمیشہ چوكنا رہتا تھا كہ آل رسول كہیں انقلاب نہ لے آئیں۔ وہ روحانی و نظریاتی انقلاب سے بھی ڈرتے تھے۔ اس لیے وہ لوگوں كو آئمہ طاہرین علیہم السلام كے ساتھ ملنے نہ دیا كرتے، لوگوں كی آمد و رفت پر مكمل طور پر پابندی تھی۔ جب ہارون نے چاہا كہ اپنے بیٹوں امین اور اس كے بعد مامون اور اس كے بعد موتمن كی ولیعہدی كا دوبارہ رسمی طور پر اعلان كرے تو وہ شہر كے علماء اور زعماء كو دعوت كرتا ہے كہ وہ مكہ میں اس سلسلے میں بلائی جانے والی عالمی كانفرنس میں شركت كریں اور سب لوگ اس كی دوبارہ بیعت كریں لیكن سوچتا ہے كہ اس منصوبہ اور پروگرام كے سامنے ركاوٹ كون ہے؟وہ كون ہے كہ جس كی موجودگی خلیفہ كے لیے بہت بڑی مشكل كھڑی كر سكتی ہے۔ كون ہے وہ كہ جس كی علمی استعداد اور پاكیزگی كردار لوگوں كو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ 
    كون ہے وہ كہ جس كی معصومانہ كشش اور مظلومانہ انداز احتجاج اس كی حكومت ظلم كی چولیں ہلاسكتا ہے؟ ظاہر ہے وہ امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ہی ہو سكتے ہیں۔ وہ مدینہ آتے ہی امام  علیہ السلام كی گرفتاری كا آرڈر جاری كر دیتا ہے۔ یہی یحییٰ برمكی ایك شخص سے كہتا ہے كہ مجھے گمان ہے كہ خلیفہ وقت آج نہیں توكل امام علیہ السلام كو گرفتار كرنے كا حكم صادر كر دے گا۔ اس شخص نے پوچھا وہ كیسے؟ بولا میں خلیفہ مسجد النبی (ص) میں گئے تو اس نے اس انداز میں حضور پر سلام كیا السلام علیك یاابن العم۔ سلام ہو آپ پر اے میرے چچا كے بیٹے۔ آپ سے معزرت چاہتا ہوں ۔ میں آپ كے بیٹے موسیٰ كاظم كو گرفتار كرنے پر مجبور ہوں (گویا وہ پیغمبر اسلام كے سامنے بھی جھوٹ بول رہا تھا) اگر میں ایسا اقدام نہ كروں تو ملك میں بہت بڑا فتنہ كھڑا ہوجائے گا۔ اجتماعی اور ملكی مفاد كیلئے كچھ دیر كیلئے امام علیہ السلام كو نظر بند كر رہا ہوں۔ یا رسول اللہ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ یحییٰ نے اپنے ساتھی سے كہا دیكھ لینا آج كل امام علیہ السلام نظر بند ہو جائیں گے۔ چناچہ ہارون نے امام كی گرفتاری كے لیے احكامات صادر كر دیئے۔ پولیس امام  علیہ السلام كے گھر گئی تو آپ وہاں پر موجود نہ تھے۔ پھر وہ مسجد النبی (ص) میں آئے دیكھا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان ظالموں نے آپ كو نماز مكمل كرنے كا موقعہ ہی نہ دیا۔ نماز كے دوران امام كو پكڑ كر زبردستی مسجد سے باہر لے آئے۔ اس وقت حضرت نے قبر رسول (ص) پر حسرت بھری نگاہ سے دیكھا اور عرض كی "السلام علیك یا رسول اللہ السلام علیك یا جداہ" نانا اپنے اسیر و مجبور بیٹے كا سلام قبول فرمائے دیكھ لیا آپ نے كہ آپ كی امت آپ كی اولاد كے ساتھ كیا سلوك كر رہی ہے؟
    ہارون ایسا كیوں كر رہا ہے؟اس لیے كہ اپنے بیٹوں كی ولی عہدی كیلئے لوگوں كو بیعت پر مجبور كرے ۔ امام موسی كاظم علیہ السلام خاموش رہے ۔ صبر و تحمل سے كام لیا كسی قسم كا انقلاب برپا كرنے كی بات نہ كی كیونكہ اس وقت كا ماحول بالكل آپ كے خلاف تھا كوئی بھی نہ تھا كہ جو آپ كی حمایت كرتا جو حامی تھے وہ بہت مجبور تھے۔ لیكن آپ كی اسیری كا انداز ظالمانہ نظام حكومت كے خلاف پر زور احتجاج بھی تھا اور آمریت كے منہ پر طمانچہ بھی آپ نے قول و فعل سے ثابت كر دیا ہے كہ ہارون اور اس كے بیٹے غاصب ہیں، مجرم ہیں ملت اسلامیہ كے دشمن ہیں ۔