سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/2/24 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • 10 رجب (1444ھ)ولادت باسعادت امام محمدتقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم رجب (1444ھ)ولادت امام محمدباقرعلیہ السلام کےموقع پر
  • ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
  • رحلت حضرت محمداور امام حسن ؑ وامام رضا ؑکی شہادت کے موقع پر
  • 25محرم(1444ہجری)شہادت امام سجاد علیہ السلام کے موقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    15شعبان المعظم(1440ھ)ولادت امام مہدی(عجل اللہ فرجہ)کےموقع پر

     ولادت باسعادتامام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) 

    بارہویں امام معصوم حضرت حجت بن الحسن المہد ی ، امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) نیمہ شعبان، ٢٥٥ ہجری ، شہر سامراء میں متولد ہوئے ۔[1]

     آپ پیغمبر اکرمﷺ  کے ہم نام (م ح م د) ہیں اور آپ کی کنیت بھی  حضرت (ابوالقاسم) ہے۔

     لیکن معصوم  نے امام زمانہ کا اصلی نام لینے سے منع کیا ہے ۔[2]

    آپ کے والد کا نام امام حسن عسکری  علیہ السلام اور والدہ کا نام نرجس ہے  نرجس خاتون کو ریحانہ ، سوسن اور صقیل بھی کہا جاتا ہے  آپ کی عظمت و معنویت اس قدر تھی کہ امام ہادی علیہ السلام کی بہن حکیمہ خاتون جوکہ خاندان امامت کی باعظمت خاتون ہیں ، آپ کو اپنے خاندان کی سردار اور اپنے آپ کو ان کی خدمت گزار کہتی تھیں ۔[3]

    آپ کے القاب
    آپ کے چند القاب ہیں جیسے حجت، قائم ، خلف صالح، صاحب الزمان  اور بقیه  اللہ   اور ان میں سب سے زیادہ مشہور لقب  "مہدی"ہے ۔

     امام زمانہ(عج) کے لئے بہت سے دیگر اسماء، القاب اور کنیات منقول ہیں۔ نمونے کے طور پر میرزا حسین نوری کی کتاب نجم الثاقب امام عصر(عج) کے 182 اسماء گرامی، اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

    امام کی   غیبت کا فلسفہ
    خالق کائنات نے انسان کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور کثیر التعداد اوصیاء بھیجے۔ پیغمبروں میں سے سب سے آخر میں چونکہ رسول اکرمﷺتشریف لائے تھے لہذا ان کے جملہ صفات و کمالات و معجزات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جمع کر دئیے اور چونکہ آپ کو بھی اس دنیائے فانی سے جانا تھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر قسم کے کمالات سے آراستہ کر دیا تھا۔ سرور کائنات کے بعد دنیا میں صرف ایک علی علیہ السلام کی ہستی تھی جو کمالات انبیاء کی حامل تھی۔ آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیاء میں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی علیہ السلام تک پہنچے۔

     خلیفہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ قتل ہو جاتے تو دنیا سے انبیاء و اوصیاء کا نام و نشان مٹ جاتا اور سب کی یادگار ختم ہو جاتی۔ چونکہ انھیں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم کی طرف سے  متعارف ہوا تھا لہذا اس کا بھی ذکر ختم ہو جاتا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کو محفوظ رکھا جائے جو جملہ انبیاء اور اوصیاء کی یادگار اور سب کے کمالات کی مظہر تھی۔

    خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ " وَ جَعَلَهَا کلَمَةَ بَاقِیَةً فىِ عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ"[4] ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں کلمہ باقیہ قرار دیا  ہے۔ نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے۔ ایک اسحاق اور دوسرے اسماعیل۔ اسحاق کی نسل سے خداوند عالم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ و باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر لیا تھا۔ نسل اسماعیل سے بھی امام مہدی علیہ السلام کو باقی رکھا۔ تیسرا یہ کہ سنت الہی ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔ چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انھیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لئے انھیں محفوظ و مستور کر دیا گیا۔

    انتظار کے ثمرات

    صبر: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ''من دین الآئمۃ الورع۔ ۔ ۔ و انتظار الفرج بالصبر'' دین ائمہ میں سے پرہیزگاری اور صبر و شکیبائی سے انتظار فرج کرنا ہے ۔ [5]

    زمانہ غیبت کے مشکل حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر منتظر شیعہ مشکلات اور مصائب کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اپنی حیثیت اور وجود کا دفاع کرے جو شخص اپنے مستقبل کے لئے پروگرام بناتاہے اور اپنے اھداف تک رسائی کے لئے ضروریات کا تعین کرتا ہے اور ان کے حصول  کیلئے تلاش کرتا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ ایک اچھا منصوبہ اور پروگرام اس کے کاموں کو جلد اور بہتر حل تک پہنچا سکتا ہے کیونکہ ایک عام پروگرام کے ذریعہ رکاوٹوں کو بہتر طریقے سے جائزہ لیا جاسکتا ہے اور ان کو راستے سے ہٹانے کے لئے چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے ایسے لوگ مشکلات کا سامنا کرتے وقت نہ غافل ہوتے ہیں اور نہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ذلت و خواری کا شکار ہوتے ہیں خوف کا سامنا کرنا ایک فطری امر ہے اور ہر انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس سے دوچار ہوجاتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سے کس طرح مستفید ہوجائے۔

     طول تاریخ میں انسان نے خوف و ہراس کے ذریعہ قدرت حاصل کی اورمحبت و عشق کے ساتھ پہاڑوں کو تسخیر کیا ہے انسان نے مصائب و آلام سے پنجہ آزمائی اور مکرر تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ کس طرح خوف اور عشق کو طاقت کا جانشین بنایا جائے اور کیسے مصائب کا راہ حل تلاش کیا جائے حقیقی منتظر وہ ہے جو زمانہ انتظار کی مشکلات کی پیشگوئی کرسکے اور پھر ان کا حل بھی ڈھونڈ سکے تاکہ اس کا صبر واقعات و سانحات سے مغلوب نہ ہونے پائے۔

    امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "امام مہدی کے لئے ایسی غیبت ہے جس کے دوران ایک گروہ دین کو چھوڑ دے گا اور ایک گروہ دین کا پابند رہے گا اور اسے اذیت و آزار کا سامنا کرنا پڑے گا ، انہیں کہا جائے گا کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ امام مہدی کے ظہور کا وعدہ کب پورا ہوگا؟ لیکن وہ جو زمانہ غیبت میں ان مشکلات اور جھٹلائے جانے پر مضبوط رہے گا وہ گویا ایسے مجاہد کی مانند ہے جو رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جہاد کررہا ہو۔[6]

    امام کاظم علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں جو بھی صبر کرے اور منتظر رہے اسے فرج اور کامیابی حاصل ہوگی اور انتظار فرج کشادگی کا ایک حصہ ہے۔  [7]

    ذکر: انتظار کا زمانہ مصائب و مشکلات کا زمانہ ہے ہر وہ چیز جو ایک شیعہ منتظر کے قلبی سکون اور روحانی تسکین کا باعث بنتی ہے اور اسے وسوسوں غفلت سے نجات دلاتی ہے وہ ذکر اور توجہ ہے انسان کی انسانیت دو عظیم چیزوں علم اور ذکر کی مرھون منت ہے علم کے ذریعہ و جہالت سے آزادی اور ذکر کے ذریعہ غفلت سے آزادی حاصل کرتا ہے انسان ایک مرحلہ میں جاھل ہوتا ہے اور اسے علم کی ضرورت ہوتی ہے لہذا اسے علم کی تلاش میں ہرطرف جانا ہوگا دوسری طرف سے حصول علم پر اس قدر زور دیا گیا ہے جو اس کی اہمیت کو دوگنا کردیتا ہے لیکن اس امر کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے کہ علم انسانی سعادت کے لئے ایک لازمی شرط ہے جبکہ اس کا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ حاصل کرنے اور سمجھنے کے بعد ایک اور خطرہ موجود ہے جسے غفلت اور بے خبری سے تعبیر کیا جاتا ہے اس مرحلہ میں علم کارساز نہیں بلکہ ذکر اور تذکر انسان کے لئے چارہ ساز ہوگا، انتظار کرنے والا مومن بھی اس حقیقت سے علیحدہ نہیں ہے کیونکہ فتنہ و فساد اور وسوسوں کا وجود اسی دنیا میں ہے اور زمانہ غیبت میں ان کا حملہ کہیں زیادہ ہے اور فطری طور پر یہ دل کو دھلا دیتے ہیں اور غفلت کا باعث ہیں لہذا منتظر شیعہ کو چاہئے کہ وہ ذکر و توجہ سے انس رکھتا ہو اور اس سے روح کی قوت اور کلید حیات قلب اور دل کی نورانیت کے لئے مدد طلب کرے۔ کیونکہ روایات میں" ذکر کو روح کی قوت اور چابی دل کی جلا اور قلب کی نورانیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔[8]

    خدا کی خلقت میں دنیا کی بھی عجیب حکمت ہے کہ اس نے انسان کی کیا ہی اچھی تربیت کی ہے کہ وہ مادیت اور ھوا وھوس کے شدید دباؤ میں بھی ذکر، نورانیت، عبادت کی حلاوت اور خودباوری کو منتظر انسان کے لئے ھدیہ کرتا ہے اور یہی انتظار اور آمادگی کا ثمر ہےجو اس کے ہاتھ آگیا ہے۔

    اصلاح: ایک فائدہ جو ہر شیعہ منتظر میں نمودار ہوتا ہے وہ اپنی اصلاح اور بری صفات سے اپنے آپ کو خالی کرکے اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا ہے اور یہ حقیقی انتظار کا فطری نتیجہ ہے اس نے تاریخ میں کئی افراد کا نظارہ کیا ہے جنہوں نے سخت حالات میں اپنے ولی اور امام کو تنہا چھوڑ دیا اس نے تاریخ میں پائے جانے والے طلحہ و زبیر اور عمر سعد جیسوں کا مطالعہ کیا ہے لہذا وہ اپنی کمزوریوں کی طرف متوجہ ہے اور ان کی اصلاح کے درپے ہے منتظر شیعہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح سے صرف خود ہی درست نہیں ہوگا بلکہ وہ ایک سماج کا حصہ ہے اور جانتا ہے کہ برا معاشرہ صالح فرد کو بھی بے راہ روی کی طرف لے جاتا ہے اس ضرورت کا احساس اسے معاشرتی اصلاح کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔

    یہ دو علامتیں ہیں جنہیں پیغمبر اسلامﷺ نے کئی سال پہلے تاریخ کے سینے میں رکھ دیا کہ مسلمان کو صالح ہونا چاہئے۔  ''المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانہ[9]

    اور مصلح بھی ہونا چاہئے۔ ''من اصبح و لم یہتم بامور المسلمین فلیس بمسلم[10]

    امام صادق علیہ السلام سے اس بارے میں منقول ہے کہ جو شخص بھی حضرت قائم کے انصار میں سے ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ منتظر رہے اور اس حالت میں پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ کو اپنا شعار بنائے۔ [11]

    امام عصر نے بھی زمانہ غیبت میں اپنے تمام شیعوں کو نیک اعمال انجام دینے اور برے اعمال سے دوری کی تلقین فرمائی ہے چونکہ ظہور آنحضرت اچانک ہوگا ۔

    آپ فرماتے ہیں: تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ ہر کام جو ہماری محبت کا باعث بنے اسے اپنائے اور جوکام ہماری ناراضگی کا سبب ہو اس سے پرہیز کرے کیونکہ ہمارا فرمان اچانک ہو گا اور پھر اس وقت توبہ اور لوٹنا کسی کو فائدہ نہ دے گا اور گناہ پر پشیمانی کسی کو ہمارے غضب سے نجات نہ دلائے گی ۔ [12]

    امید: انتظار فرج پر اہل بیت ؑ کی طرف سے اس لئے بہت تاکید آئی ہے کیونکہ اس سے منتظر شیعہ میں امید کی کرن پیدا ہوتی ہے اور یہی مستقبل کی بابت خوش بین ہونا ہی اس کی زندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اگر کوئی یہ سوچ کے بیٹھ جائے کہ کوئی جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہے تو پھر اس کے اندر طاغوت اور ستمگروں سے جنگ کا کوئی انگیزہ باقی نہ رہے گا لیکن اگر کوئی مستقبل کی بابت امید لگائے ہو اور جانتا ہو کہ کبھی نہ کبھی زمین پر صلحاء کی حکومت قائم ہوگی اور معاشرتی امور کی اصلاح ہوگی اور ظلم و ستم کا جنازہ اٹھ جائے گا تو وہ ایسے آئیڈیل معاشرہ تک رسائی کے لئے دوسروں کی بھی تربیت کرے گا تاکہ حکومت کریمہ کا راستہ ہموار کرسکے انتظار کی کیفیت اور پیشوا کے حاضر ہونے کا یقین معاشرہ پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جب یہ پیشوا معاشرہ میں حاضر ہو تو امت کی راہنمائی اور معاشرتی امور پر نگرانی اس پر لازم اور ضروری ہے لیکن جب یہ رہبر کسی بنیاد پر جیل میں یا تبعید یا مریض ہو تو پھر بھی لوگ اس کے وجود کی امید پر ہاتھ میں ہاتھ دیئے مصروف عمل رہتے ہیں ۔

    طول تاریخ میں جب زندہ اقوام کی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو جب تک کسی تحریک کا رہبر زندہ ہوتا ہے اگرچہ وہ قریب سے رہبریت کے فرائض انجام نہ بھی دے رہا ہوتو پھر بھی یہ تحریک متحد رہتی ہے لیکن جونہی اس کی وفات ہوجاتی ہے تو پھر اس کے پیروکاروں میں اختلاف اور گروہ بندی شروع ہوجاتی ہے لہذا انتظار کی کیفیت اور ایک زندہ حاضر و ناظر امام کے وجود پر عقیدہ رکھنا عوامی وحدت کے تحفظ اور انہیں ظلم و ستم کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تیار کرنا بہت موثر ہے۔

    امام کی معیت: ایک  منتظر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنےگفتار و کردار اور سوچ میں اپنے امام کی اعلی صفات کے قریب ہو اس کا مقصد وہی ہوتا ہے جو امام کو پسند ہو اور اس فعل کو انجام دیتا ہے جس سے اس کا امام خوش ہوتا ہو یہی وجہ ہے کہ اس کا اخلاق لوگوں کو اس امام غائب کی یاد دلاتا ہے اور وہ اس قدر پسندیدہ صفات سے آراستہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانے کے بہترین افراد میں اس کا شمار ہوتا ہے منتظرین امام سماجی اقدار میں اس قدر عدل و انصاف کے پابند ہوتے ہیں کہ لوگ عدالت اجتماعی کا جلوہ انہی میں دیکھ سکتے ہیں اور منتظرین یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے زیادہ منفور وہ شخص ہے جو امام کی سیرت کو اپنائے نہ ان کے امور میں ان کی پیروی کرے۔ [13]

    اپنے وقت کے امام سے ہم آھنگی ہر قسم کے دنیاوی لگاؤ سے آزادی کا مرھون منت ہےاور اسی شرح صدر سے انسان کو عظمت حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ ''واجعل لی مع الرسول سبیلا'' [14] کا ورد کرسکتا ہے کیونکہ جب تک کوئی اس حد تک کمال حاصل نہ کرپائے وہ رسول اللہ اور ان کے ولی علیہ السلام سے ہمراہی اور ھم آھنگ نہیں ہوسکتا ان بزرگان کی داستانیں ہمارے سامنے ہیں جو امام کے دیدار کا اشتیاق رکھتے تھے لیکن ان کی دنیا سے محبت امام موعود سے جدائی کا سبب بنا۔ [15]

    رسول خدا اور ان کے ولی سے معیت اور ہم رنگ ہونا ان کے اہداف سے عملی نگاہ کا طالب ہے اگر میرا نصب العین متاع دنیا ہے اور اسی زندگی پر رضایت حاصل کرنا ہے۔ [16]

    تو پھر امام کے مقاصد سے ہم آہنگی نہیں ہوسکتی اور امام کی معیت اور ان کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس ظاہری لگاؤ کو ترک کیا اور دنیا سے آزادی اختیار کی اور ایسی وسیع النظری حاصل کرلی تو پھر وہ اس دنیا میں محدود رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ امام معصوم کی معیت اور ان کے خیمہ میں رہنے کی صلاحیت پیدا کرلیتے ہیں۔

    "قال ابوعبداللہ علیہ السلام من مات منکم وھو منتظر لہذا الامر کمن ھو مع القائم فی فسطاطہ"  اگر کوئی تم میں سے اس حالت میں مرجائے کہ وہ امام زمانہ کی حکومت کا منتظر تھا تو وہ اس شخص کی مانند ہے جوامام قائم کے خیمہ میں تھا۔[17]

    بصیرت: منتظر مومن زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنے آپ کو تیار کرتا ہے جن میں سے ایک فکری اعتبار سے تیار رہنا ہے مومن منتظر کی فکری جدوجہد کا نتیجہ بصیرت اور معرفت کی صورت میں سامنے آتا ہے مختلف حوادث اور فتنہ و فساد غفلت کے علاوہ انسانی افکار میں تردد و تزلزل بھی ایجاد کرتے ہیں لیکن مکتب انتظار میں پروان چڑھنے والا شخص اپنی بصیرت کے باعث بیدار رہتا ہے کیونکہ اس نے علی علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ سن رکھا ہے کہ ''فانما البصیر من سمع فتفکر و نظر فابصر'' [18]

    وہ جانتا ہے کہ آئین تشیع آغاز سے ہی دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے اور عصر غیبت میں تو اس میں بہت شدت آئی ہے انہوں نے زمانہ غیبت میں وحی رسول کی جگہ خالی دیکھ کر فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کی گمراہی میں پیش قدمی کی وہ جانتا ہے کہ اس دوران جہاں تک ممکن ہوسکے وہ آنحضرت کے آئین اور اھداف کا دفاع کرے اور دشمنوں کے اعتراضات کے دندان شکن جواب دے۔

    منتظر شیعہ تاریخ کی آغوش میں ہے اور اس سے سبق لیتا ہے وہ سردار وفا حضرت ابوالفضل العباس  ؑ  کو اپنے لئے اسوہ قرار دیتے ہوئے درس بصیرت لیتا ہے۔ [19]

    منتظر مومن بیدار ہے اور خداوند نے اسے اتنی عقل و شعور دیا ہے کہ اس کے لئے زمانہ غیبت، عصر ظہور کی طرح ہے اور اس کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ وہ زمانہ انتظار کے اعتراضات کا بہ آسانی جواب دے سکتا ہے ۔

    امام سجاد علیہ السلام  فرماتے ہیں:" یا ابا اخالد! ان اھل زمانہ القائلین بامامتہ والمنتظرین لظہورہ افضل من کل زمان لان اللہ تبارک و تعالی اعطاھم من العقول والافہام والمعرفۃ ما صارت بہ الغیبۃ عندھم بمنزلۃ المشاھدۃ"[20]  اے ابا خالد زمانہ غیبت کے لوگ ان کی امامت کے معتقد اور ان کے ظہور کے منتظرہیں اور تمام زمانوں کے لوگوں سے بہتر ہیں کیونکہ خداوند نے انہیں اس قدر عقل و شعور دیا ہے کہ ان کے لئے غیبت ظہور کی طرح ہے۔

    ایک منتظر  کی معرفت اس معیار پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنی آمادگی اور تیاری کے ساتھ کسی قسم کے اعتراض اور شبہ کا راستہ بند کردیتا ہے اور اپنی روح و قلب کو ہر قسم کے شر سے محفوظ کرلیتا ہے ۔

    امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "طوبی لمن تمسک بامرنا فی غیبۃ قائمنا فلم یزغ قلبہ بالھدایۃ"[21] خوشخبری ہے ایسے شخص کے لئے جو ہمارے قائم کے زمانہ غیبت میں ہمارے فرمان سے متمسک رہتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کا ہدایت یافتہ دل باطل کی طرف نہیں جھکتا ۔

    منتظر  ایسی معرفت اور بصیرت سے لبریز ہوتا ہے کہ اسے ایمان میں کمال اور یقین میں عظمت کا لقب دیا گیا ہےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: اے علی: جان لو کہ لوگوں میں باکمال اور ایمان میں صاحب عظمت وہ گروہ ہے جنہوں نے آخرالزمان میں پیغمبر(ص)کو نہیں دیکھا اور اپنے امام علیہ السلام سے دور ہیں۔ [22]



    [1] ۔ شيخ مفيد، الارشاد،  ص 346۔

    [2] ۔ مجلسى، بحارالأنوار، ص 31 -34۔

    [3] ۔ صدوق، كمال الدين، ص 432

    [4] ۔ زخرف/28۔

    [5] ۔ بحار الانوار ج۵ ص ۱۲۲

    [6] ۔ بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۳۲

    [7] ۔ مکیال المکارم ج۲ ص۴۱۱۔۴۲۶

    [8] ۔ میزان الحکمۃ ج۳ ص ۴۱۷، ۴۱۸ ۔

    [9] ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ج۴ ص ۳۵۸

    [10] ۔ کافی ج۲ ص ۱۶۳ ح۱ ص ۱۶۴ ح۵

    [11] ۔ الغیبۃ نعمانی ص۲۹۱ ح ۱۶

    [12] ۔ احتجاج طبرسی ج۲ ص ۳۲۲

    [13] ۔ کافی ج۸ ص ۲۳۴

    [14] ۔ مفاتیح الجنان

    [15] ۔ انتظار اور انسان معاصر،  عزیز ا للہ حیدری، ص ۷۱۔ ۷۳

    [16] ۔ یونس/ ۷

    [17] ۔ بحار الانوار ج۴۲ ص ۱۲۶

    [18] ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۱۵۸

    [19] ۔ مفاتیح الجنان زیارتنامہ حضرت ابوالفضل(ع) ۔

    [20] ۔ کمال الدین ص۳۳۰۔

    [21] ۔ بحارالانوار ج۵۲ ص ۱۲۲۔

    [22] ۔ وسائل الشیعہ  ج۱۸ ص۶۵۔