سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/9/11 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    ۲۹ ذیقعدہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی شہادت کادن


    ۲۹ ذیقعدہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی شہادت کادن

    اخلاق و اوصاف

    امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا، غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا . مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لئے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا . بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا .
    اہل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے ، یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال اورطور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی.حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہوسکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا .بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کا آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا کہ جتنا ان کے صفات سے ۔ وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے ، کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے. امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ , فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی . جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے , اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عھد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زھر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا .
    اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ہے جو تین برس پہلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا . حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت آسان ہے اوراس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتھائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا .

    عراق کاآخری سفر

    ۲۱۸ھ میں مامون نے دنیا کو خیر باد کھا .اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا کے بعد ولی عھد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشہور ہوا . اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی . جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے . مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کردیا تھا اس لئے اپنی بات اور کیے کی لآج رکھنے کی خاطر ا س نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نھیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عھدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ہوئے تھا اور امام محمدتقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا ، اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا ، حق بجانب ثابت کرنا تھا , پھر سب سے زیادہ امام محمدتقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت، آپ کے اخلاقی اثر کی شہرت جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پھونچی ہوئی تھی وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی او ر پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ہوجانا جو اس عقد کامحرک ہوا تھا اور معتصم مخالفت کے لئے آمادہ ہوگیا . اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمدتقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلو ابھیجا . حاکم مدینہ عبدالمالک کو اس بارے میں تاکید ی خط لکھا . مجبوراً امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ہوئے .

    شہادت

    بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاہر آپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے علاوہ اور کیا کھا جاسکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا، آپ کی زندگی کاخاتمہ کردیا گیا اور ۲۹ذی القعدہ ۲۲۰ھ میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی ۔ اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے پاس دفن ہوئے .

    آپ ہی کی شرکت کالحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شہر کانام کاظمین (دوکاظم یعنی غصہ کوضبط کرنے والے) مشہور ہوا ہے . اس میں حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے لقب کوصراحةً سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کانام جوادّین (دوجواد یعنی فیاض) درج ہے جس میں صراحةً حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لقب کو ظاہرکیاجارہا ہے . چونکہ آپ کالقب تقی بھی تھا اور جواد بھی .
    بشکریہ شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام