b فلسفہ توحید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدعادل علوی - مجلہ عشاق اہل بیت 1۔ شوال ،ذی الحجہ 1414 ھ
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2025/2/1 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

فلسفہ توحید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدعادل علوی

پہلی قسط

فلسفہ توحید

آقای سید عادل علوی مدظلہ

ترجمہ: مرغوب عالم عسکری ہند

افی اللہ شک؟  کیا وجودخدامیں کوئی شک ہے؟ ہرگز نہیں۔

اس لئے کہ اثبات صانع عالم پرقطعی دلائل وعقلی براہین کافی ہیں ۔اوروجودخداومعرفت توحیدکیلئے انفاس خلائق کی آمدوشد کی تعداد کے مثل ادلہ وطرق معرفت پائے جاتے ہیں۔

شعر:     ففی کل شی ء لہ اٰ یۃ            تدل علیٰ انہ الواحد

ترجمہ: ہر شئے میں اللہ کی نشانی موجود ہے جواس کی وحدانیت ویکتائی پردلالت کرتی ہے۔

"لیس کمثلہ شی ء" کوئی شی ء اس کے مثل نہیں وہ عالم وقادر، اورحی ہے۔ہرشی ء اس کے قبضئہ قدرت میں ہے اورتمام امور کی بازگشت بھی اسی کیطرف ہے لیکن ہمارے اس تاریکی اورضلالت  کے دور میں ، کہ جس میں کفروالحادی مکاتب فکرمثلاکمیونزم مختلف راستوں ، مسموم فکروں، وہمی وجود سازفلسفوں ،نیز بے بنیاد وضعیف آئیڈیالوجی کے ساتھ ہمارے اسلامی بلاد والہی معاشرے میں سرایت کرنے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔اس لئے کہ انکے اہداف ومقاصدواستعماری منصوبے فقط اس بات میں منحصرہیں کہ وہ ہمارے نوخیز جوانوں کوروح دینی وجذبہ اسلامی سے دورکردیں ۔اس لئے کہ جب قیدوں اوربندیوں سے آزادہوجائیں گےتوانکے اموال واملاک کوہڑپ کرنااورانکوزنجیر غلامی پہناناانکے لئے آسان ہوجائےگا۔

اورپھرپوری آزادی کیساتھ وہ اپنی خبیث لذتوں اورناپاک شہوتوں کی تحصیل وتکمیل کرسکیں گے۔اسی حوالہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہردور اورہرزمانہ کےعلماومحققین نے مختلف علوم وفنون میں اثبات وجودخالق کیلئے فلسفی دلائل وعلمی براہین کئے ہیں جن سے پورے طورپروجودباری تعالیٰ کااثبات ہوجاتاہے۔

دنیائے بشریت نے جب شعوروادراک کی منزل میں قدم رکھاہے اس عالم کوَن کیلئے ایک خالق وصانع کے اعتقاد سے بےبہرہ نہیں رہی ہے لیکن گذشت ایام  ومرور زمان کے ساتھ حقیقت امراس پرکبھی کبھی مشتبہ ہوئی اوراپنے عقیدہ سے منحرف ہوگئی اوراس انحراف کے نتیجہ میں تشخیص نہ دے سکی کہ اسکی گمشدہ چیزکیاہے؟ اوراس کامطلوب واقعی اورمقصود حقیقی کیاہے؟

اوریہ بات کہ بشرآغاز آفرینش سے ایک خالق کامعتقدہے(اگرخالق کے واقعی مصداق کے سلسلے میں اشتباہ )یہ سلیم فطرت کی آواز پرلبیک کہنے  کےمترادف ہے اسلئے کہ ہربشرکی پاکیزہ فطرت پکارپکارندا دے رہی  ہے کہ اس کائنات کاایک خالق اورایک صانع ہے۔ جس نے اس کائنات کوخلق کیااورفیض وجودسے بہرہ مندکیا۔

سلیم فطرت کے تقاضے کےتحت اس عالم فانی کیلئے صانع حکیم اورمدبرکاوجودضروری ہے۔اورانسان ابتدائے خلقت سے اسی فطرت کی باطنی نداء کے پیچھے دوڑ رہاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنی جبلت اورفطرت کے اعتبارسے عبودیت پہ نیز اس اعتقاد پہ پیداہی کیاگیاہے کہ اس عالم ہستی کیلئے ایک خالق عالم وحی وقادر موجودہے۔

لہذااثبات صانع کے اوپرانسان کی سلیم فطرت بہترین دلیل ہے۔ اور اس دلیل کے علاوہ دوسری تمام عقلی ونقلی دلیلیں اسی دلیل فطرت کے اجاگرکرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔اس بناپرہم بھی دلیل فطرت کوروشنی بخشنے کیلئے بطوراجمال چندعقلی ونقلی دلیلیں پیش کررہے ہیں۔

عقلی دلائل

1۔ دلیل امکان:وہ یہ ہیکہ تمام موجودات کوباعتبارموجود لحاظ کیاجائے ۔ جیساکہ ہم بالبداہہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ عالم خارج میں بعض موجودات وجود خارجی رکھتے ہیں تواب جوچیز موجودہے وہ یاواجب الوجود ہے یاممکن الوجود اسلئے کہ وجودکامفہوم تین طرح سے متصورہوتاہے۔

اول: "واجب الوجود لذاتہ" یعنی جس کاوجودبالذات ضروری ولازم ہواسکے لئے کسی علت ایجادکی احتیاج نہ ہوبلکہ وہ خودعلت العلل ہواورتمام سلسلہ معلولات اسکی منتہی ہوتے ہوں جیسے وجودخدا۔

دوم: ممتنع الوجود۔یعنی جس کا عدم لازم وضروری ہو اوراس کے عدم کیلئے کسی علت کی ضرورت نہ ہوجیسے کہ شریک باری تعالیٰ ۔

سوم:ممکن الوجود۔ یعنی جس کی طرف وجود وعدم کی نسبت برابرہو کہ علت کی صورت میں اس کا وجودممکن اورعدم علت کی صورت میں اس کاعدم ممکن ہو جیسے خداکے علاوہ ہرشئے۔

پس وجودخارجی اگرواجب الوجود ہے توہمارا مقصدحاصل ہے۔اوراگرممکن  الوجود،ہے توایسی صورت میں اسکے لئے ایک واجب الوجود کاہونالازم آئیگا حدوث کےاعتبارسے بھی اوربقاکےلحاظ سے بھی ۔

ورنہ وہ مستلزم دورہوگا یعنی بعض ممکنات کوبعض کے لئے علت فرض کرناپڑے گا۔یااس کے برعکس ،یعنی  یہ کہ بعض کابعض کے لئے علت ہونافرض کرنا پڑے گا۔ یامستلزم تسلسل ہوگا۔

یعنی جملہ ممکنات کیلئے ایک غیرمتناہی سلسلہ فرض کرناپڑے گا۔اس طرح سےکہ اس سلسلہ غیرنہائی کے درمیان ہرسابق اپنے لاحق کیلئے علت ہو۔اور یہ دونوں صورتیں (دور وتسلسل )باطل ہیں۔

پہلی صورت یعنی دور باطل ہے۔ اسلئے کہ دورفرض کرنے کی صورت میں ایک ہی شئے کا آن واحد میں موجودومعدوم ہونالازم آئیگا۔کیونکہ دور کہتے ہی ہیں "توقف الشیء علیٰ نفسہ"کویعنی ایک شئے کاوجوداپنی ہی ذات پرموقوف ہو۔اورایک چیزکاوجودخوداپنی ذات پرموقوف ہونامحال ہے۔اسلئے کہ اس سے "اجتماع نقیضین" لازم آتاہے۔

اسی طرح دورسے یہ بھی لازم آتاہے کہ ایک ہی شئے مقدم بھی ہواورمؤخربھی ہو اوراس کےبرعکس ۔نیزیہ کہ ایک شئے علت بھی ہواورمعلول بھی اوراس کے برعکس۔

یہ ساری چیزیں یعنی ایک ہی شئے کاخوداپنی ہی ذات   پہ موقوف ہونا، ایک ہی شئے کامقدم ومو خرہونا، ایک ہی شئے کاعلت ومعلول ہونابالبداہہ باطل ہیں۔

دوسری صورت یعنی تسلسل بھی باطل ہے ۔ کیونکہ تسلسل کی صورت میں ،یاتواس سلسلہ میں کوئی واجب یعنی علت غیرمعلول ہوگاتوخلاف فرض ہونالازم آئیگااسلئے کہ ایسی صورت میں یہ سلسلہ اسی واجب تک منتہی ہوجائیگا۔کیونکہ اس واجب کاکوئی سابق نہیں ہے حالانکہ ہم نے  سلسلے کو غیرمتناہی فرض کیاہے۔

دوسرے یہ کہ اس فرض سے ہمارامطلوب ثابت ہورہاہے۔یادوسری صورت یہ کہ اس سلسلہ میں کوئی بھی واجب نہ ہوگاتوایسی صورت میں حتمی طورپراس سلسلہ کے سارے افرادکاممکن ہونالازم آتاہے۔ اوراسی کیساتھ ہی ساتھ تمام ممکنات کامعدوم ہونابھی ضروری ہوگا۔اس لئے کہ ممکن الوجودباالذات نہیں ہوتابلکہ علت کا محتاج ہوتاہے پس اگر اس کی علت بھی ممکن رہی تواس کے لئے بھی ایک علت کی ضرورت ہوگی یہاں تک کہ یہ سلسلہ ممکنات موجودباالذات تک منتہی ہوگاجوواجب الوجودلذاتہ ہے اوریہ بات بھی آپ کے فرض کے خلاف ہے۔

جب یہ بات طے ہوگئی کہ دور وتسلسل باطل ہے توواجب الوجود کاموجودہوناثابت ہوگیاجوخالق کائنات اورآفرینندہ جمیع ممکنات ہے۔