b 7ذی الحجہ(1439ھ)شہادت حضرت امام محمدباقر علیه السلام کےموقع پر
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2025/2/1 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • اعیاد شعبانیہ (1446ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    7ذی الحجہ(1439ھ)شہادت حضرت امام محمدباقر علیه السلام کےموقع پر

    امام محمد باقر عليہ السلام علم کابہتاہواچشمہ
    اللہ کے رسول ﷺ  نے جب جابرکو اپنے فرزند،محمدؑ بن علي ؑ  کي زيارت کي بشارت دي تھي، اس وقت امام کو “باقر العلوم”کہہ کر پکارا تھااور فرمايا تھا: “وہ علم کو پوري طرح شگافتہ کرے گا۔"بے شک امام باقر علیہ السلام  تمام علوم کا دريائے ناپيدا کنار تھے۔ ايک ايسا چشمہ کہ جو جوش مارتا رہے اور علم کے پياسوں کو سيراب کرتا رہے۔آپ ؑ  کے ايک شاگرد،جناب جابربن يزيدجُعفي جوبقولِ خود،امام علیہ السلام سے سترہزاراحاديث کے ناقل ہيں،کہتے ہيں:"ميں نے ان "امام باقرعلیہ السلام  کي اٹھارہ سال خدمت کي۔ جب ميں ان سے جداہورہاتھاتو ميں نے عرض کيا: “حضور! مجھے اپنے علم سے سيراب کيجئے۔ ”امام (ع) نے سناتوپوچھا:“کيا اٹھارہ سال بعدبھي سيراب نہيں ہوئے ہو؟”جابر نے عرض کيا:“آقا آپ ايسا چشمہ ہيں جس کا آبِ شيريں کبھي ختم نہيں ہوسکتا۔
    علم و دانشِ امام(ع) کا يہ جوش مارتا چشمہ صرف علم کے پياسے شيعوں کے لئے باعثِ سيرابي نہ تھا بلکہ امت مسلمہ کے تمام علماکے لئے خوشگوار آبِ حيات تھا۔ آپ (ع) کا وجودِ پُربرکت مختلف اديان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپني جانب مائل کر ليتا تھا اور ہر طرح کے لوگوں کو اپنے عظيم علمي مقام کے اعتراف پر مجبور کر ديتا تھا۔ چنانچہ اہلسنت کے مشہور مورخ ابن حجر ہيثمي اپني کتاب صواعق المحرقہ ميں آپ علیہ السلام  کي تعريف کرتے ہوئے لکھتے ہيں: " آپ (ع) علم کوشگافتہ کرنے والے اوراس کوجمع کرنے والے تھے۔ آپ (ع) کا عمل آپ کي پہچان تھا اور آپ کو بلند کرتا تھا۔ آپ کا دل پاک اور علم و عمل پاکيزہ تھا۔آپ (ع) عظيم اخلاق کے مالک اور اپنا وقت بندگيِ خدا ميں گذارتے تھے اور عرفاني مقامات ميں ايسے عظيم درجات پر فائز تھے کہ کسي کو اس کے بيان کا يارا نہيں۔"

    امام محمد باقر عليہ السلام کی عبادت

    آپ اپنے  آباؤاجدادکی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نمازپڑھنی اورسارا دن روزہ سے گزارناآپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پربیٹھتے تھے ہدایاجوآتے تھے اسے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیتے تھے غریبوں پربے حدشفقت فرماتے تھے تواضع اورفروتنی،صبروشکرغلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیرتھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پرصرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اورانہیں اچھے نام سے یادکرتے تھے۔ 

    آپ کے ایک غلام افلح کابیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پرنظرپڑی آپ چیخ مارکررونے لگے میں نے کہا کہ حضورسب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشادکیا،اے ا فلح شاید خدابھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اورمیری بخشش کاسہاراہوجائے، اس کے بعدآپ سجدہ میں تشریف لے گئے اورجب سراٹھایاتوساری زمین آنسوؤں سے ترتھی۔  

    امام محمد باقر عليہ السلام اور سياسي مسائل

    زيدي شيعوں نے امامت کے معاملہ ميں تلوار کے ساتھ امام کے قيام کو اپنے مذہب کي ايک بنياد قرار ديا ہے۔ زيدي فرقہ کي نظر ميں ايک علوي فرد اس وقت امام قرار پا سکتا ہے جب وہ مسلح تحريک چلائے۔ بصورتِ ديگر وہ اسے امام نہيں سمجھتے تھے۔ اگر زيديوں کے اس عقيدہ کے نتيجہ کي جانب توجہ کي جائے تو وسيع اسلامي مملکت کے گوشہ و کنار ميں نفسِ زکيہ، ان کے بھائي ابراہيم، حسين بن علي معروف بہ شہيد فخ اور بعض دوسرے افراد کے وسيلہ سے کي جانے والي چند پراگندہ اور ناکام تحريکوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہيں آتا۔

    جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ:

    الف: وہ لوگ خدا کے برگزيدہ بندوں، يعني ائمہ طاہرين کے بجائے ہر اس علوي کے پيچھے چل پڑے جو تلوار اٹھا لے۔

    ب: ثقافتي اعتبار سے تفسير، فقہ و کلام ميں امامي شيعوں کے مقابلہ ميں زيدي شيعہ کوئي منظم اور مربوط ثقافت نہيں اپنا سکے۔ يہ لوگ فقہ ميں تقريباً ابوحنيفہ کے اور کلام ميں پورے طور پر معتزلہ کے پيروکار تھے۔ اس کے مقابلہ ميں شيعہ ائمہ خصوصاً امام باقرٴ اور امام صادقٴ کے علمي اقدامات کي وجہ سے ايسا مکتب پيدا ہوا جس کي اپني ايک خاص اور بھرپور ثقافت تھي، جو بعد ميں مکتبِ جعفري کے نام سے مشہور ہوئي۔ اگرچہ مکتبِ باقري کے نام سے شہرت بھي غلط نہيں ہے۔ يہ فکري مکتب جو تمام معاملات ميں علومِ اہلبيت کو منظم طور پر پيش کرتا ہے، يہ ان دو اماموں کي نصف صدي (سال ٩٤ سے ١٤٨ ہجري تک) کي دن رات کي کوششوں کا نتيجہ ہے۔

    اس زمانے کے سياسي حالات ميں جب کہ اموي اور ان کے بعد عباسي حکمران اپني حکومت کي بقائ کے لئے ہر مخالف طاقت اور ہر مخالفت کو کچل ديا کرتے تھے، ايسے موقف کے انتخاب کے ساتھ طبعي طور پر اہم سياسي اقدامات نہيں کيے جاسکتے تھے۔ اور ہر جگہ واحد خوبي يہي نہيں ہوتي کہ ہر صورت اور ہر قيمت پر سياسي عمل ميں شرکت کي جائے چاہے اس کے لئے معارف حق کے بيان سے چشم پوشي کرني پڑے اور ايک پوري امت پر راستہ ہميشہ کے لئے بند کرديا جائے۔ ائمہ طاہرين نے اس دور ميں اپنا بنيادي موقف يہي قرار دے ديا تھا کہ اسلام کے حقيقي ديني معارف کو بيان کيا جائے اور اپنا اصلي کام يہي چُن ليا تھا کہ مذہبي ثقافت کي تدوين کي جائے اس کا يہ مطلب بھي نہيں ہے کہ ائمہ نے ظالم حکمرانوں کے خلاف کبھي کوئي موقف نہيں اپنايا۔

    عقبہ بن بشير نامي ايک شيعہ امام باقرٴ کے پاس آيا اور اپنے قبيلہ ميں اپنے بلند مقام کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ہمارے قبيلہ ميں ايک عريف (حکومت کي طرف سے منظور شدہ کسي قوم کا ترجمان يا سردار) تھا جو مر چکا ہے۔ قبيلہ کے لوگ چاہتے ہيں کہ مجھے اس کي جگہ عريف بنا ديں۔ آپ ؑ اس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟ امام ؑ نے فرمايا:کيا تم اپنے حسب اور نسب کا ہم پر احسان جتاتے ہو؟ اللہ تعاليٰ مومنوں کو ان کے ايمان کي وجہ سے بلند مقام ديتا ہے حالانکہ لوگ اسے معمولي سمجھتے ہيں اور کافروں کو ذليل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہيں۔ اور يہ جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہارے قبيلہ ميں ايک سردار تھا جو مرچکا ہے اور قبيلہ والے تجھے اس کي جگہ پر رکھنا چاہ رہے ہيں، تو اگر تجھے جنت بري لگتي ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبيلہ کي سرداري کو قبول کرلے کيونکہ اگر حاکم نے کسي مسلمان کا خون بہايا تو تو اس کے خون ميں شريک سمجھا جائے گا اور شايد تجھے ان کي دنيا سے بھي کچھ نہ ملے۔

    يہ روايت بتاتي ہے کہ امامؑ  کس طرح سے اپنے شيعوں کو حکومت ميں کسي بھي مقام حتيٰ کہ عريف بننے سے بھي روکتے تھے جس کي کوئي خاص حيثيت بھي نہيں ہوتي تھي۔ اور اس کي دليل يہ تھي کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناہوں ميں شيعہ شريک نہ ہوں۔

    امام باقر علیہ السلام مختلف طريقوں سے لوگوں کو حکمرانوں پر اعتراض اور ان کو نصيحت کرنے کي ترغيب دلايا کرتے تھے۔ آپٴ سے منقول ايک روايت ميں آيا ہے کہ: "من مشيٰ اليٰ سلطان جائرٍ فامرہ بتقوي اللہ و وعظہ و خوّفہ کان لہ مثل اجر الثقلين من الجن و الانس و مثل اجورھم" جو ظالم حاکم کے پاس جاکر اسے خدا سے ڈرائے اور نصيحت کرے اور اسے قيامت کا خوف دلائے، اس کے لئے جن و انس کا اجر ہے۔

    تقيہ وہ بنيادي ترين ڈھال ہے جس کي آڑ ميں شيعوں نے بنو اميہ اور بنو عباس کے سياہ دورِ حکومت ميں اپني حفاظت کي۔ جيسا کہ امام باقرؑ نے اپنے بابا سے نقل کيا کہ آپٴ نے فرمايا" ان التقيۃَ من ديني و دين آبائي و لادين لمن لاتقيۃَ لہ"بے شک تقيہ ميرا اور ميرے اجداد کا دين ہے۔ اور جس کے پاس تقيہ نہيں اس کے پاس دين نہيں۔

    امام باقرؑ کے زمانے ميں اموي حکام اہلبيت کے معاملہ ميں بہت سخت گيري کرتے تھے اور يہ سخت گيري ان کے امامت اور ديني۔سياسي رہبري کے دعويٰ کي وجہ سے تھي کہ وہ بنواميہ کو غاصب سمجھتے تھے۔ تاريخ  بتاتي ہے کہ اموي خلفائ ميں صرف عمر بن عبدالعزيز تھا جس نے ا ہل بيت کے ساتھ نسبتاً نرم رويہ اپنايا تھا۔

     اسي لئے اہلسنت نے امام باقرؑسے روايت کي ہے آپ ؑ نے فرمايا: اموي دور ميں اہلبيت پر سب سے زيادہ سختياں ہشام بن عبد الملک کي جانب سے ہوئيں۔ اسي کے سخت اور توہين آميز جملات تھے جنہوں نے زيد بن علي کو (سال ١٢٢ ہجري ميں) کوفہ ميں قيام کرنے پر مجبور کرديا۔ زيد کے ساتھ ہشام کي ملاقات ميں اس نے حتيٰ کہ امام باقر علیہ السلام کي بھي توہين کي اور امويوں کے مخصوص اندازِ تمسخر اور طريقہ اذيت کے مطابق امام ؑ کہ جن کا لقب باقر تھا، انہيں ’’بقرہ‘‘ (گائے) کہا۔ زيد اس کي اس جسارت پر بہت ناراض ہوئے اور فرمايا:"سماہ رسول اللہ الباقر و انت تسميہ البقرۃ، لشد ما اختلفتما و لتخالفنہ في الآخرۃ کما خالفتہ في الدنيا فيرد الجنۃ و ترد النار"

    رسول اللہ نے انہيں باقر کہا ہے اور تو انہيں بقرہ (گائے) کہہ رہا ہے۔ تيرے اور رسول اللہ کے درميان کس قدر اختلاف ہے! تو آخرت ميں بھي ان کي اسي طرح مخالفت کرے گا جس طرح سے دنيا ميں کر رہے ہو۔ اس وقت وہ جنت ميں اور تو جہنم ميں داخل ہوگا۔

    امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت         

     آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ۱۱۴ ھ  کومدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے ۔    

     علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں"مات مسموماکابیہ" آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے ۔

     آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرکے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی ۔