سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/9/11 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    ۲۹ صفر المظفر(1440ھ) امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر

    سَمِعْتُ الرِّضَا(ع) يَقُولُ: «لَا يَجْتَمِعُ الْمَالُ إِلَّا بِخِصَالٍ خَمْسٍ بِبُخْلٍ شَدِيدٍ وَ أَمَلٍ طَوِيلٍ وَ حِرْصٍ غَالِبٍ وَ قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَ إِيثَارِ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَة»

    امام رضا علیہ السلام کو یہ ‌‌فرماتے ہوئے سنا: مال اورثروت ایک جگہ پر جمع نہیں ہو سکتا مگر ان پانچ خصلتوں کی وجہ سے:بہت زیادہ بخل،طویل آرزو،بہت زیادہ لالچ، رشتہ داروں سے قطع تعلق اوردنیا کو آخرت پر ترجيح دینا۔

    ویسے تو ائمه علیهم السلام سب کے سب وارث علم نبوت هیں هر ایک اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور بینظیر عالم هیں لیکن بعض ائمه کو اپنا علمی جوهر د کھانے کی فرصت ملی انهی میں سے حضرت امام رضا علیه السلام  بھی هیں مخصوصا جب آپ خراسان آئے تو اپنےعلم سے لوگوں کو فیضیاب کرنے کی زیاده فرصت ملی چونکه ایک طرف  مختلف علوم کا عربی زبان میں ترجمه اپنے عروج پر تھا اور دوسری طرف خود خلیفه امام علیه السلام کو شکست دینے کی غرض سے ایسےعلمی مناظروں کا اهتمام کرتا تھا که جن میں مختلف مکاتب فکر اور مختلف ادیان کے سب سے بڑے علماء کو امام سے مناظره کرنے کیلئے بلاتے تھے۔

    جيساكہ مأمون نے ’’سلمان مروزي‘‘خراسان كے معروف متكلم سے كہا: "اِنّما وَجَّھتُ اليك لِمَعرِفَتي بقوّتك وَلَيس مُرادِي اِلاّ اَن تقطعہ عن حجّۃٍ واحدۃٍ فقط" يعني ميں نے تمہيں مناظرہ كرنے كي دعوت فقط اس ليے دي ہے كيونكہ ميں تمہاري علمي قدرت سے آشنا و آگاہ ہوں اور ميري خواہش و مراد فقط يہ ہے كہ فقط اورفقط ايك علمي دليل ايسي لاؤ جس كے سامنے وہ (امام رضا عليہ السلام)لاجواب ہوكر رہ جائيں’’ليكن مأمون كي خام خيالي كے برعكس امام عليہ السلام كي شخصيت كے علمي پہلو زيادہ واضح طور پر جلوہ گر ہورہے تھے اور اس طرح رسولِ خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے اہلبيت كي لياقت و برتري عوام اور اہل علم افراد پر زيادہ واضح و نماياں ہورہي تھي جيسا كہ خود امام عليہ السلام نے ’’نوفلي‘‘سے فرمايا:" يا نوفلي أتحب أن تعلم متى يندم المأمون ، قلت : نعم ، قال : إذا سمع احتجاجي على أهل التوراة بتوراتهم وعلى أهل الإنجيل بإنجيلهم وعلى أهل الزبور بزبورهم وعلى الصابئين بعبرانيتهم وعلى الهرابذة بفارسيتهم وعلى أهل الروم بروميتهم وعلى أصحابالمقالات بلغاتهم ، فإذا قطعت كل صنف ودحضت حجته وترك مقالته ورجع إلى قولي علم المأمون أن الموضع الذي هو بسبيله ليس هو بمستحق له ، فعند ذلك تكون الندامة منه ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم"

    ‘‘اے نوفلی کیا یه جاننا چاهتے هو که کب مامون پشیمان هو گا ؟ اس نے کها : جی هاں . امام نے فرمایا : جب اهل تورات کے خلاف  تورات سے دلیل لاوں انجیل والوں کو  انجیل سے زبور والوں کو زبور سے صابئین کو ان کے اپنے عبرانیت سے هرابزه کو فارسی سے روم والوں کو اپنے رومی سے اور باقی زبان والوں کو اپنی اپنی زبانوں سے دلیل لاوں يعني جب تمام مناظرہ كرنے والوں پر ميں حجت تمام كر كے لاجواب كردوں گا اور ان كي دليلوں كے جواب دے كر انھيں رد كر دوں گا تو مأمون خود سمجھ جائے گا كہ جو مقام اس نے اپنےليے انتخاب كيا ہے،خود اس كے لائق نہيں ہے اس وقت وه پشیمان هو جائیگا‘‘

    عزائے امام حسین علیہ السّلام کی اشاعت

    اب امام رضا علیہ السّلام کو تبلیغ  حق کے لیے نام امام حسین علیہ السّلام کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگیا تھا جس کی بنیاد اس سے  پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام علیہ السّلام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السّلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد ُ سلطنت بھی . اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع ہے .مرو کامقام ہے ہر طرف کے لوگ یہاں آتے ہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ادھر محرم کا چاند نکلا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے . دوسروں کو بھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ آلِ محمد کے مصائب کو یاد کرو اور تاثرات  غم کو ظاہر کرو.یہ بھی ارشاد ہونے لگا کہ جو اس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کا دل مردہ نہیں ہوگا، اس دن کہ جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔

    تذکرہ امام حسین علیہ السّلام کے لیے جو مجمع ہو اس کانام اصطلاحی طو ر پر مجلس  امام رضا علیہ السّلام کی حدیث ہی سے ماخوذ ہے . آپ نے علمی طور پر خود مجلسیں کرنا شروع کر دیں , جن میں کبھی خود ذاکر ہوئے اور دوسرے سامعین جیسے یان بن شیب کی حاضری کے موقع پر جو اپ نے مصائب امام حسین علیہ السّلام بیان فرمائے اور کبھی عبدالله بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعر کی حاضری کے موقع پر اس شاعر کو حکم ہوا کہ تم ذکر امام حسین علیہ السّلام میں اشعار پڑھو وہ ذاکر ہوا اور حضرت سامعین میں داخل ہوئے . دعبل کو حضرت نے بعدمجلس ایک قیمتی حلّہ بھی مرحمت فرمایا جس کے لینے میں دعبل نے یہ کہہ کرعذر کیاکہ مجھے قیمتی حلّہ کی ضرورت نہیں ہے اپنے جسم کااترا ہوا لباس مرحمت فرمائے تو حضرت نے ان کی خوشی پوری کی وہ حلّہ تو انھیں دیا ہی تھا اس کے علاوہ ایک جبّہ اپنے پہننے کا بھی مرحمت فرمایا . اس سے ذاکر کابلند طریقہ کار کہ اسے کسی دنیوی انعام کی حاضر یامعاذ الله اجرت طے کرکے ذاکری نہیں کرنا چاہیے اور بانی مجلس کاطریقہ کار کہ وہ بغیر طے کیے ہوئے کچھ بطور پیشکش ذاکر کی خدمت میں پیش کرے دونوں امرثابت ہیں مگر ان مجالس میں سامعین کے اندر کسی حصہ کی تقسیم ہر گز کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں ہوئی ۔

    شہادت

    واقعہ شہادت کے متعلق مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاتھا کہ ”فمایقتلنی واللہ غیرہ“ خداکی قسم مجھے مامون کے سواء کوئی اورقتل نہیں کرے گا اورمیں صبرکرنے پرمجبورہوں۔

    ایک روزمامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کواپنے گلے سے لگایااورپاس بٹھاکران کی خدمت میں بہترین انگوروں کاایک طبق رکھا اوراس میں سے ایک خوشااٹھاکرآپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہایابن رسول اللہ یہ انگورنہایت ہی عمدہ ہیں تناول فرمائیے آپ نے یہ کہتے ہوئے انکارفرمایاکہ جنت کے انگوراس سے بہتر ہیں اس نے شدید اصرارکیااورآپ نے اس میں سے تین دانے کھالیے یہ انگورکے دانے زہرآلودتھے انگورکھانے کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے ،مامون نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جہاں تونے بھیجاہے وہاں جارہا ہوں قیام گاہ پر پہنچنے کے بعد آپ تین دن تک تڑپتے رہے بالآخرانتقال فرماگئے۔انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام باعجازتشریف لائے اورنمازجنازہ پڑھائی اورآپ واپس چلے گئے مامون  نے بڑی کوشش کی کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا اس کے بعد آپ کوبمقام طوس میں دفن کردیاگیا جوآج کل مشہدمقدس کے نام سے مشہورہے اوراطراف عالم کے عقیدت مندوں کامرکزہے۔