b 18ذی الحجہ(1440ھ)امیرالمومنین علی علیہ السلام کی تاج پوشی کےموقع پر
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/11/12 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    18ذی الحجہ(1440ھ)امیرالمومنین علی علیہ السلام کی تاج پوشی کےموقع پر

    مولائےکائنات امیرالمومنینعلیہ السلام کی تاج پوشی

    غدیرکا واقعہ   

    پیغمبر اسلام ﷺنے اپنی تبلیغ رسالت کے23 برسوں کے دوران بڑی زحمتوں ، مشقّتوں اور مصیبتوں کا تحمل کرتے ہوئے اسلام کا درخت لگایا۔ پیغمبر اکرمﷺنے اس عرصے میں بے پناہ رنج ومصا ئب برداشت کیے لیکن تبلیغ رسالت کے حوالے سے اپنے فریضے کی ادائیگی میں ایک لمحہ بھی کوتاہی و غفلت وسستی سےکام نہیں لیا۔سنہ10 ہجری میں ہاتف غیبی نے آپ کو آپ کی عنقریب رحلت کی خبر دی اس لئےرسول خداﷺ اسلام کی تبلیغ اور مصالح مسلمین کےحوالےسے ضروری امور کی مکمل انجام دہی میں بلا فاصلہ مصروف ہوگئے۔

    اس دوران پیغمبر اسلام ﷺکے سامنے سب سے اہم مسئلہ اپنی خلافت و جانشینی کا تھا اس لئے  پیغمبر، خدا کے آخری نبی ورسول تھے اور ان کے بعد خدا کی جانب سے کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں تھا اس لئے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے تھی جو رسول کےبعد لوگوں کی ولایت وسرپرستی کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ وہ مطیع پروردگار اور کمالات انسانی کا مظہر ہو اور ہر قسم کی برائیوں خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ ہو تاکہ رسول اللہ کے بعد امت مسلمہ کی شاندار قیادت کرسکے۔

    اسی لئے پیغمبر اکرمﷺنے اس آخری حج میں جو حجۃالوداع کے نام سےمشہور ہے، اپنی جانشینی کا باضابطہ طورپر مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں اعلان فرمایا۔

    آخری حج میں رسول اکرمﷺکی جانشینی کے اعلان کا واقعہ کتب تاریخ میں اس طرح تحریر ہے کہ "رسول خداﷺ  حج آخر کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکّے سے مدینے کی جانب روانہ ہو گئےاور جب سرزمین خم پر پہنچے تو جبریل امین وحی الہی لےکر نازل ہوئے اور آپ کے سامنے یہ حکم خدا پہنچایا " اے پیغمبر !آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے کار رسالت کو نہیں پہنچایااور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گاکہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتاہے"

    یہاں پر یہ سوال اٹھتاہے کہ یہ کیسا اہم پیغام تھا کہ اگر لوگوں تک نہ پہنچایا جائے تو درحقیقت پیغمبر اکرمﷺنے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا۔؟ کون سا اہم مسئلہ ہے کہ جس کے ابلاغ کے حوالے سے پیغمبر کو لاحق تشویش خدا نے دور کردی اور آپ کو یہ اطمینان دلایا کہ آپ لوگوں کے شر سے محفوظ رہیں گے؟ لیکن یہا ں لوگوں کے شر اور نقصان سے مراد، جسمانی اور مالی نقصان نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر شجاع ترین انسان تھے اور میدان جنگ میں گھمسان کی لڑائی کے وقت بھی آپ پر کبھی خوف وہراس طاری نہیں ہوتا تھا۔ آنحضرتﷺاپنے آپ کو لوگوں سے ضررو نقصان پہنچنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں تھے بلکہ بعض جاہلوں اور منافقوں سے اسلام کو خطرہ لاحق ہونے سے انھیں تشویش لاحق تھی۔

    پیغمبر اکرم ﷺ شدید گرمی کےباوجود فرمان الہی کے نفاذ کے لئے غدیر خم کے مقام پر یہ حکم دیتے ہیں کہ تمام حاجیوں کو وہاں روکا جائے۔ جب حاجیوں کا مجمع وہاں جمع ہوگیا تو رسول اکرمﷺ نے بلندی پر جاکر خطبے کا آغاز حمد وثنائے الہی سے کیا اس کے بعد فرمایا " جبریل امین تین مرتبہ مجھ پر نازل ہوچکے ہیں اور مجھے یہ حکم خدا پہنچایا ہے کہ یہاں توقف کریں اور رسالت الہی کو منزل اختتام تک پہنچائیں۔  پھر فرمایا " کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ اولی اور حاکم نہیں ہوں؟ یہ سن کر سارے مجمع نے جواب دیا بیشک ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا " کیا میں تمھارا پیغمبر اور ہادی ورہبر و رہنما نہیں ہوں؟ سب نے جواب میں آپ کے قول کی تصدیق کی۔ اس وقت آپ نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا دست مبارک پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا " میں جس کا مولی ہو ں اس کے علی مولی ہیں "

    غدیر کے پیغامات

    غدیر کے پیغامات کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کرنے کیلئے  مناسب ہے کہ اس موضوع کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ ”غدیر خم “کے پیغامات کیا کیا ہیں ؟  کیا اس کے پیغامات رسول اکرمﷺکی حیات مبارک اور آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مخصوص ہیں یا روز قیامت تک ان پر عمل کیا جاسکتا ہے؟ اب ہم یہاں پر غدیر کےچند  پیغامات کی  اشارہ کرتے ہیں ۔ 
    ۱۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔
    ۲۔ انبیاء علیہم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرمﷺ نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰہی منصب ہے اور ہر امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔
    ۳۔ غدیر کے پیغامات میں سے ایک مسئلہ رہبری اور اس کے صفات و خصوصیات کا مسئلہ ہے، ہر کس و ناکس اسلامی معاشرہ میں پیغمبر اکرمﷺ کا جانشین نہیں ہوسکتا، رہبر حضرت علی علیہ السلام کی طرح ہو جو پیغمبر اکرمﷺ کے راستہ پر ہو، اور آپ کے احکام و فرمان کو نافذ کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ ہو تو اس کی بیعت نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا غدیر کا مسئلہ، اسلام کے سیاسی مسائل کے ساتھ متحد ہے۔

    ۴۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔
    ۵۔ غدیر اور جشن غدیر ، شیعیت کی نشانی ہے، اور در حقیقت غدیر کا واقعہ اس پیغام کا اعلان کرتا ہے کہ حق (کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی محوریت میں ہے) کے ساتھ عہد و پیمان کریں تاکہ کامیابی حاصل ہوجائے۔
    ۶۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پہنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
    ۷۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اہل بیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرمﷺ نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اہل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی رہنمائی فرمائی۔
    ۸۔ غدیر کا ایک پیغام یہ ہے کہ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر اور اہم مصلحت کی وجہ سے مہم مصلحت کو نظر انداز اور اس کو اہم مصلحت پر قربان کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام حالانکہ خداوندعالم کی طرف سے اور رسول اکرمﷺ کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی رہبری اور مقام خلافت پر منصوب ہوچکے تھے، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اگر میں اپنا حق لینے کے لئے اٹھتا ہوں تو قتل و غارت اور جنگ کا بازار گرم ہوجائے گا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں نہیں ہے تو آپ نے صرف وعظ و نصیحت، اتمام حجت اور اپنی مظلومیت کے اظہار کو کافی سمجھا تاکہ اسلام محفوظ رہے؛ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام اگر اس کے علاوہ کرتے جو آپ نے کیا تو پھر اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک دردناک حادثہ پیش آتا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی، لہٰذا یہ روز قیامت تک امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم سبق ہے کہ کبھی کبھی اہم مصلحت کے لئے مہم مصلحت کو چھوڑا جاسکتا ہے۔
    ۹۔ اکمال دین، اتمام نعمت اور حق و حقیقت کے بیان اور لوگوں پر اتمام حجت کرنے سے خداوندعالم کی رضایت حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ آیہٴ شریفہ ”اکمال“ میں اشارہ ہوچکا ہے۔
    ۱۰۔ تبلیغ اور حق کے بیان کے لئے عام اعلان کیا جائے، اور چھپ کر کام نہ کیا جائے، جیسا کہ پیغمبر اکرمﷺ نے حجة الوداع میں ولایت کا اعلان کیا اور لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے ملاٴ عام میں ولایت کو پھنچا دیا۔
    ۱۱۔ خلافت، جانشینی اور امت اسلامیہ کی صحیح رہبری کا مسئلہ تمام مسائل میں سر فہرست ہے اور کبھی بھی اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ رسول اکرمﷺ حالانکہ مدینہ میں خطرناک بیماری پھیل گئی تھی اور بہت سے لوگوں کو زمین گیر کردیا تھا لیکن آپ نے ولایت کے پہنچانے کی خاطر اس مشکل پر توجہ نہیں کی اور آپ نے سفر کا آغاز کیا اور اس سفر میں اپنے بعد کے لئے جانشینی اور ولایت کے مسئلہ کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔
    ۱۲۔ اسلامی معاشرہ میں صحیح رہبری کا مسئلہ روح اسلامی اور شریعت کی جان کی طرح ہے کہ اگر اس مسئلہ کو بیان نہ کیا جائے تو پھر اسلامی معاشرہ کے ستون درہم و برہم ہوجائیں گے، لہٰذا خداوندعالم نے اپنے رسول سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "َإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَ "     اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔