b ۲۸ صفر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم رحلت کی مناسبت سے
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/11/12 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    ۲۸ صفر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم رحلت کی مناسبت سے

    ۲۸ صفر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم رحلت کی مناسبت سے

    آپ کی زندگی کا مختصر جائزہ 

    میلاد نور

    یوں تو انسانی تاریخ میں بہت سے اہم دن آئے اور گذر گئے ، لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن وہ عظیم دن ہے جسے انسان چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلا سکتا۔ اس دن الله کے آخری نبی اس دنیا میں تشریف لائے ۔ اس دن اس دنیامیں اس عظیم انسان نے قدم رکھا جس کی زیارت کے تمام انبیاء مشتاق تھے۔ اس دن دنیا میں وہ تشر یف لائے جن کے بارے میں انبیاء ماسبق نے اپنے اوصیاء کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر وہ آپ کے سامنے آگئے تو انھیں ہمارا سلام کہنا۔ مسلمانوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر او ر کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں وہ عظیم سعادت نصیب ہوئی جس کی تمنا لئے ہوئے بہت سے انبیاء اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ چونکہ الله نے ہمیں یہ عظیم سعادت عطا فرمائی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی امت کا جز بنے رہیں اور آپ کی تعلیمات کی قدر کرتے ہوئے ان پر عمل کریں ۔ 

    پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت:

    پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔ شیعہ آپ کی ولادت ۱۷/ ربیع الاول کو مانتے ہیں اور سنی آپ کی ولادت کے سلسلہ میں بارہ ربیع الاول کے قائل ہیں ۔ اسی طرح آپ کی ولادت کے دن میں بھی مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے روز ہوئی اور اہل سنت کہتے ہیں کہ جس دن آپ کی ولادت ہوئی وہ پیر کا دنتھا۔

    پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے والدین:

    آپ کے والد ماجد حضرت عبد الله ابن عبد المطلب ہیں۔ حضرت عبد الله وہ انسان ہیں جو خاندانی شرافت کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز ہیں ۔ حضرت عبد الله کے والد حضرت عبد المطلب ہیں ، جن کی عظمت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ جب ابرہہ خانہٴ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے مکہ آیا اور آپ اس کے پاس گئے تو وہ آپ کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوگیا۔

    حضرت عبد الله اس خاندان سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے حسین و جمیل ،رشید، مودب اور عقلمند انسان تھے۔ یوں تو مکہ کی بہت سی خواتین آپ سے شادی کی متمنی تھیں مگر چونکہ نور نبوت کو ایک خاص آغوش کی ضرورت تھی اس لئے آپ نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے جناب آمنہ بنت وہب سے شادی کی۔ 

    تاریخ میں ملتا ہے کہ ابھی اس شادی کو چالیس دن بھی نہ ہوئے تھے کہ جناب عبد الله نے تجارت کی غرض سے شام کا سفر اختیارکیا، جب آپ اس سفر سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ اپنے ننھیا ل والوںسے ملاقات کے لئے مدنیہ گئے اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوگیا یعنی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ چونکہ جناب آمنہ جناب عبد الله کے ساتھ زیادہ دن نہ رہ سکیں تھیں اس لئے وہ آپ کی یادگار اور اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ جب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پانچ سال کے ہوئے تو جناب آمنہ ، جناب عبد المطلب سے اجازت لے کر ام ایمن کے ساتھ ، اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے مدنیہ گئیں۔ اس سفر میں پیغمبر اسلام بھی آپ کے ہمراہ تھے اور یہ پیغمبر اسلام کا پہلا سفر تھا۔ جب یہ قافلہ مکہ کی طرف واپس پلٹ رہا تھا تو راستہ میں ابواء نامی جگہ پر جناب آمنہ بیمار ہوئیں اور آپ کا وہیں پر انتقال ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی والدہ کو وہیں دفن کیا اور ام ایمن کے ساتھ مکہ آگئے۔

    پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے آج بھی ابواء میں جناب آمنہ کی قبر پر زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔جب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس حادثہ کے ۵۰/سال بعد اس مقام سے گذرے تو اصحاب نے دیکھا کہ آپ سواری سے نیچے اتر کر ، کسی سے کچھ کہے بغیر ایک طرف آگے بڑھنے لگے ، کچھ اصحاب یہ جاننے کے لئے کہ آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں آپ کے پیچھے چلنے لگے۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ پر جاکر رکے اور بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگے ۔ آپ قرآن پڑھتے جاتے تھے اور اس جگہ کو غور سے دیکھتے جاتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے، اصحاب نے سوال کیا یا رسول الله! آپ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایاکہ یہ میری ماں کی قبر ہے آج سے پچاس سال قبل میں نے انھیں یہاں پر دفن کیا تھا۔

    ماں کا سایہ سر اٹھ جانے کے بعد پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری جناب عبد االمطلب نے سنبھالی۔ وہ آپ کو بہت پیار کرتے تھے اور اپنے بیٹوں سے کہتے تھے کہ یہ بچہ دوسرے بچوں سے مختلف ہے ابھی تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہولیکن آنے والے وقت میں یہ بچہ الله کا نمائندہ بنے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب اس بچہ کے معصوم چہرے پر نور نبوت دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ جلد ہی اس کے پاس وحی کے ذریعہ الله کا وہ دین آنے والا ہے جو دنیا کے تمام ادیان پر چھا جائے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب کی نگاہیں وہ سب کچھ دیکھ رہیں تھیں جسے دیکھنے سے باقی لوگ قاصر تھے۔ جب جناب عبد المطلب کا آخری وقت قریب آیا ، تو آپ کے بڑے بیٹے جناب ابوطالب نے آپ کے چہرے پر پریشانی کے کچھ آثار دیکھے، وہ آگے بڑھے اور اپنے والد سے اس پریشانی کا سبب جاننا چاہا تو جناب عبد المطلب نے فرمایا کہ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں ہے میں صرف اس بچہ کی طرف سے فکرمند ہوں کہ اسے کس کے سپرد کروں۔ کیا اس بچے کی سرپرستی کو تم قبول کرتے ہو؟ کیا تم یہ وعدہ کرتے ہو کہ میری طرف سے اس کی کفالت کرتے رہو گے؟ جناب ابوطالب نے جواب دیا کہ بابا مجھے منظور ہے۔ جناب ابوطالب نے اپنے بابا سے کئے ہوئے وعدہ کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا اور پوری زندگی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی مدد و حفاظت کرتے رہے ۔ جناب ابوطالب پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے اور آپ کی زوجہ فاطمہ بنت اسد یعنی مادر حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ماں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ 

    بعثت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) کا کردار

    کسی بھی انسان کی سماجی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ موٴثر ہوتی ہے وہ اس کے ماضی کا کردار ہے ۔پیغمبر اسلام(ص) کی ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ دنیا کے کسی بھی مدرسہ میں پڑھنے نہیں گئے ۔آپ (ص) کا کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کرنا اس بات کا سبب بنا کہ جب آپ (ص) نے لوگوں کے سامنے قرآنی آیتوں کی تلاوت کی تو وہ تعجب میں پڑگئے اور آپ کے گرویدہ ہو گئے ۔اگر آپ (ص) کسی دنیاوی مدرسہ میں پڑھے ہوتے تو لوگ یہی سمجھتے کہ یہ آپ کی مدرسہ کی تعلیم کا کمال ہے ۔

    آپ کی دوسری صفت یہ ہے کہ آپ (ص) نے اس ماحول میں جس میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر سبھی بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے کبھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔لھذا جب آپ (ص) نے بتوں اور بت پرستوں کی مخالفت کی تو کوئی آپ(ص) کو یہ نہ کہہ سکا کہ آپ(ص) ہمیں کیوں منع کر رہے ہیں ؟ آپ بھی تو کل تک ان کے سامنے سر جھکاتے تھے ۔

    آپ(ص) کی خاصیت یہ تھی کہ آپ(ص) نے مکہ جیسے شہر میںجوانی کی پاک و پاکیزہ زندگی بسر کی اور کسی برائی میں ملوث نہیں ہوئے جب کہ ان دنوں مکہ شہر برائیوں کا مرکز تھا ۔

    بعثت سے پہلے آپ(ص) مکہ میں صادق ، امین اور عاقل مانے جاتے تھے ۔آپ(ص) لوگوں کے درمیان محمد امین (ص) کے نام سے مشہور تھے ۔ صداقت و امانت میں لوگ آپ (ص) پر بہت زیادہ اعتمادکرتے تھے اور بہت سے کاموں میں فقط آپ(ص) ہی کی عقل پر اعتماد کیا جاتا تھا ۔ عقل ، امانت و صداقت آپ کے ایسے صفات تھے جنہوں نے آپ(ص) کو عالم میں ممتاذ بنا دیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب لوگ آپ(ص) کو اذیتیں دینے لگے اور آپ کی باتوں کا انکار کرنے لگے تو آپ(ص) نے ان سے فرماےا کہ : کیا تم نے مجھے کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے ؟ سب نے یک زبان کہا نہیں ، ہم آپ(ص) کو سچا اور امانت دار مانتے ہیں ۔

    پیغمبر اسلام(ص) کی شادی

    پیغمبر اسلام (ص) جب پچیس سال کے ہوئے تو انہوں نے جناب خدیجہ کی پیشکش پر ان سے شادی کی ۔ جناب خدیجہ ایک ثروت مند خاتون تھیں اور آپ کی ذات میں ظاہری و باطنی تمام کمالات پائے جاتے تھے ۔پیغمبر اسلام (ص)کی بعثت کے بعد آپ نے اپنی پوری دولت اسلام کی ترویج میں قربان کردی ۔انہوں نے پوری زندگی پیغمبر اسلام (ص)کا ساتھ دیا وہ اولین مسلمانوں میں تھیں وہ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نماز پڑھتی تھی  جب امام و ماموم کی تعداد کل تین افراد پر مشتمل تھی یعنی پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ص) اور حضرت خدیجہ ۔

    اس شادی کے نتیجہ میں حضرت زہرا  (ص)اس دنیا میں تشریف لائیں جو آگے چل کر حضرت علی (ص) کی شریک حیات اور گیارہ معصوم اماموں کی ماں قرار پائیں ۔ہمارا درود و سلام ہو پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کی آل پاک پر ۔

    رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت

    28 صفر سنہ 11 ھ ق کو رسول اسلام صلی الله علیه وآله وسلم  کی رحلت ہوئی ۔رحلت کے وقت آپ صلی الله علیه وآله وسلم  کی عمر 63 سال تھی ۔ صداقت اور امانت داری میں آپ صلی الله علیه وآله وسلم بچپن میں ہی مشہور ہوگئے تھے ۔ لوگ آپ صلی الله علیه وآله وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔ چالیس سال کی عمر میں خدا کے حکم سے آپصلی الله علیه وآله وسلم  نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور لوگوں کو خدائے واحد و یکتا کی پرستش ، عدل و انصاف اور مساوات کی دعوت دی ۔ نسلی اور قومی امتیاز ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا ۔ آپ صلی الله علیه وآله وسلم اپنی قوت فکر ، اعلیٰ افکار اور حسین و لطیف احساسات و جذبات کے لحاظ سے دنیا کے لئے خدا کی رحمت تھے ۔ آپصلی الله علیه وآله وسلم  ہر ایک سے نہایت ہی شیریں لہجے اور محبت آمیز انداز میں گفتگو کرتے تھے ۔ جو بھی آپصلی الله علیه وآله وسلم کے قریب آتا تھا آپ صلی الله علیه وآله وسلم کا گرویدہ ہوجاتا تھا ۔ جس نے بھی آپصلی الله علیه وآله وسلم  کو دیکھا اس نے کہاکہ : نہ تاریخ میں ایسی ہستی اس سے پہلے گزری  ہے اور نہ آئندہ پیدا ہوگی ۔