سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/9/18 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    عیدسعیدغدیرامیرالمومنین علیہ السلام کی تاج پوشی کادن(1435ھ)

    عیدسعیدغدیر مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تاج پوشی کادن (1435ھ)   

    واقعہ غدیر، روز اکمال دین اوراتمام نعمت

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تبلیغ رسالت کے تیئیس برسوں کے دوران بڑی زحمتوں ، مشقّتوں اور مصیبتوں کا تحمل کرتے ہوئے اسلام کا درخت لگایا۔ پیغمبر اکرمۖ نے اس عرصے میں بے پناہ رنج ومصا ئب برداشت کیے لیکن تبلیغ رسالت کے حوالے سے اپنے فریضے کی ادائیگی میں ایک لمحہ بھی کوتاہی و غفلت وسستی سےکام نہیں لیا۔سنہ دس ہجری میں ہاتف غیبی نے آپ کو آپ کی عنقریب رحلت کی خبر دی اس لئےرسول خدا(ص) ،اسلام کی تبلیغ اور مصالح مسلمین کےحوالےسے ضروری امور کی مکمل انجام دہی میں بلا فاصلہ مصروف ہوگئے۔

    اس دوران پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے سب سے اہم مسئلہ اپنی خلافت و جانشینی کا تھا اس لئے پیغمبر، خدا کے آخری نبی ورسول تھے اور ان کے بعد خدا کی جانب سے کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں تھا اس لئے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے تھی جو رسول کےبعد لوگوں کی ولایت وسرپرستی کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ وہ مطیع پروردگار اور کمالات انسانی کا مظہر ہو اور ہر قسم کی برائیوں خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ ہو تاکہ رسول اللہ (ص) کے بعد امت مسلمہ کی شاندار قیادت کرسکے۔

    اسی لئے پیغمبر اکرم(ص) نے اس آخری حج میں جو حجۃالوداع کے نام سے مشہور ہے، اپنی جانشینی کا باضابطہ طورپر مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں اعلان فرمایا ۔

    آخری حج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کے اعلان کا واقعہ کتب تاریخ میں اس طرح تحریر ہے کہ "رسول خدا (ص) حج آخر کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکّے سے مدینے کی جانب روانہ ہو گئےاور جب سرزمین خم پر پہنچے تو جبریل امین وحی الہی لےکر نازل ہوئے اور آپ کے سامنے یہ حکم خدا پہنچایا "

    اے پیغمبر !آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے کار رسالت کو نہیں پہنچایااور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گاکہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتاہے"

    یہاں پر یہ سوال اٹھتاہے کہ یہ کیسا اہم پیغام تھا کہ اگر لوگوں تک نہ پہنچایا جائے تو درحقیقت پیغمبر اکرم(ص) نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا۔؟ کون سا اہم مسئلہ ہے کہ جس کے ابلاغ کے حوالے سے پیغمبر کو لاحق تشویش خدا نے دور کردی اور آپ کو یہ اطمینان دلایا کہ آپ لوگوں کے شر سے محفوظ رہیں گے؟ لیکن یہا ں لوگوں کے شر اور نقصان سے مراد، جسمانی اور مالی نقصان نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر شجاع ترین انسان تھے اور میدان جنگ میں گھمسان کی لڑائی کے وقت بھی آپ پر کبھی خوف وہراس طاری نہیں ہوتا تھا۔ آنحضرت (ص) اپنے آپ کو لوگوں سے ضررو نقصان پہنچنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں تھے بلکہ بعض جاہلوں اور منافقوں سے اسلام کو خطرہ لاحق ہونے سے انھیں تشویش لاحق تھی۔

    پیغمبر اکرم(ص) شدید گرمی کےباوجود فرمان الہی کے نفاذ کے لئے غدیر خم کے مقام پر یہ حکم دیتے ہیں کہ تمام حاجیوں کو وہاں روکا جائے ۔ جب حاجیوں کا مجمع وہاں جمع ہوگیا تو رسول اکرم(ص) نے بلندی پر جاکر خطبے کا آغاز حمد وثنائے الہی سے کیا اس کے بعد فرمایا " جبریل امین تین مرتبہ مجھ پر نازل ہوچکے ہیں اور مجھے یہ حکم خدا پہنچایا ہے کہ یہاں توقف کریں اور رسالت الہی کو منزل اختتام تک پہنچائیں ۔ پھر فرمایا " کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ اولی اور حاکم نہیں ہوں؟ یہ سن کر سارے مجمع نے جواب دیا بیشک ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا " کیا میں تمھارا پیغمبر اور ہادی ورہبر و رہنما نہیں ہوں؟ سب نے جواب میں آپ کے قول کی تصدیق کی۔ اس وقت آپ نے امیرالمومنین حضرت علی (ع) ابن ابی طالب علیھما السلام کا دست مبارک پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا " میں جس کا مولی ہو ں اس کے علی مولی ہیں "

    غدیرخم میں ہاتھوں پراٹھایا اٹھایا اوردنیاکودیکھایا

    کہامجمع سے میں مولاہوں جسکا علی ؑ بھی آج سے مولاہے اسکا

    بعض مورخین نے غدیر خم میں حاجیوں کی تعداد اسّی ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک تحریر کی ہے ۔اس واقعہ کے بعد سورۂ مائدہ کی تیسری آیت نازل ہوئی " آج کے دن کافر تمھارے دین کے زوال سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج مینے تمھارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے" یہ اہم واقعہ کفار کے مایوس ہونےکا باعث بن گیا۔ یعنی وہ لوگ جو اس بات کے منتظر تھے کہ رحلت پیغمبر کےبعد اپنے منحوس و مذموم اہداف کو حاصل کریں گے ، اپنے اہداف میں ناکام ہوگئے اور غدیرخم میں حکم الہی سے پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی جانشینی کے اعلان کے باعث (کہ جو صبر وشجاعت و درایت و استقامت میں پیغمبر (ص) کی مانند تھے) کافروں کی امید ، مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔یہ عظیم واقعہ ا س امر کا غماز ہے کہ اسلام کی نظر میں امت اسلامیہ کے رہبر وقائد و رہنما کو صالح، نیکوکار، باخبر،مدیر ومدبر، عالم ودانا اور ہمدرد ہونا چاہیےاس لئے کہ ہر فرد کو ایسا اہم منصب نہیں دیا جاسکتا۔

    امام رضا علیہ السلام اور عید غدیر

    فیاض بن محمد طوسی نے جو اپنی زندگی کی ستر بہاریں دیکھ چکا تھا، سن ۲۵۹ ہجری قمری کو طوس میں ایک جھمگٹے سے خطاب کرتے ہوئے یوں کہا: ایک بار عید غدیر کے دن ہم چند لوگوں پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے عید غدیر کے پیش نظر ہم سب کو افطار کے لئے رکنے کا حکم فرمایا۔ وہاں رکے ہوئے گروہ کے گھر والوں کے لئے کھانا بھجوایا اور لباس، انگوٹھی اور جوتے تحفے کے طور پر بھجوائے۔ اس کے بعد غدیر خم کی فضیلت اور وہاں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں باتیں کرنے لگے اور اپنے والد گرامی اور دیگر اجداد سے یوں نقل فرمایا: میرے جد بزرگوار اور امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں غدیر کا دن جمعے کو آیا۔ آپ علیہ السلام نے جمعے کی نماز ادا فرمائی اور ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں لوگوں کو عید ولایت اور وصایت منانے کی ترغیب دی۔

    یہاں تک پہنچ کر حضرت امام رضا علیہ السلام نے ہمارے لئے اپنے جد بزرگوار کا خطبہ نقل فرمایا۔

    پس ثابت ہوا کہ عید غدیر کو منانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت علیہم السلام اور تمام مسلمانوں کی آرزو تھا اور آج بھی ہے۔ دوسری طرف بنی امیہ اور بنی عباس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ کسی طرح عید سعید غدیر کے دن برپا ہونے والے مراسم کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کردیا جائے؛ کیونکہ اس سنت الہی کا احیاء درحقیقت اہل بیت علیہم السلام کی حکومت کے سچے ہونے کی گواہی تھا اور بس! یہی سبب ہے کہ چوتھی صدی کے درمیانی برسوں تک یہ اسلامی رسم کو حکومتی سطح پر فراموش کردیا گیا تھا۔ آخر کار جب آل بویہ بر سر اقتدار آئے، تو انہوں نے رسمی طور پر اس دن کو عید کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ سن ۳۵۲ ہجری قمری میں معز الدولہ نے عید غدیر نیز عاشورا کے مراسم اپنے دربار میں برپا کئے۔ آل بویہ کی حکومت کے زیر سایہ ملک کے گوشے گوشے میں آہستہ آہستہ یہ مراسم آشکارا طور پرمنائے جانے لگے۔

    بہرحال عید سعید غدیر نے تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز کا مشاہدہ کیا ہے جو اپنی جگہ آپ اس اسلامی اور الہی رسم کے سچے ہونے کی ایک واضح دلیل ہے ۔

    حادثہ غدیر اور ولایت و وصایت کے احیاء )جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیرینہ آرزئوں میں سے ایک تھا( کے لئے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے والد بزرگوار کی رحلت کے بعد شہدائے احد کی قبور کے پاس محمود بن لبید سے کہا:

    "و اعجبا اعجبا اَ نسیتم یوم غدیر خم؟... اشهد الله تعالى لقد سمعت رسول الله [صلى الله علیه وآله] یقول: علی خیر من اخلفه فیكم، و هو الامام و الخلیفة بعدى..." (

    ترجمہ: تعجب ہے! کیا تم لوگ غدیر خم کے واقعے کو فراموش کرچکے ہو؟! ۔۔۔ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتی ہوں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: علی علیہ السلام تمام لوگوں میں سب سے بہترین انسان ہیں، جنہیں میں تمہارے درمیان اپنا جانشین بنا رہا ہوں؛ علی علیہ السلام امام اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے۔