سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    21رمضان (1436ھ)شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کےموقع پر




    21رمضان (1436ہجری)شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کےموقع پر

    19  رمضان کو اللہ کے گھر میں پہلی دہشتگردی

     امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ سلام کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے لے کر شہادت تک خوشنودی خدا اور رضائے الہی کے لئے بسر ہوئی۔ یعنی امیرالمومنین حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلام کی پیشانی ایک دن تو کیا ایک آن کے لئے بھی غیر خدا کے سامنے نہیں جھکی۔ آپ  ان پانچ ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ نیز قرآن مجید میں اسکے علاوہ بھی متعدد آیات مولا کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ تبلیغ، آیہ اکمال دین، آیہ ولایت، آیہ اولی الامر اور آیہ مباہلہ قابل ذکر ہیں۔

    امیر المومنین ؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب ؑ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

    امیر المومنین ؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ ؐ سے اتنی عقیدت تھی کہ جس طرح آپ کی دنیا میں ظاہری آمد سے پہلے آپ کے والدین نے ہر لمحہ رسول اللہ ؐ  کا ساتھ دے کر نصرت و حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی ہر لمحہ اور ہر وقت دشمنان خدا و دشمنان رسول ؐ کے مقابلے میں رسول اللہ ؐ کی حمایت اور حفاظت و دفاع کا فریضہ انجام دیا۔

    خود کو رسول اللہ ؐ  کا غلام کہہ کر مولائے متقیان امیر المومنین ؑ  فخر کیا کرتے تھے جبکہ خود رسول ؑ نے آپ ؑ  کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐ  نے مجھ (علی) کو علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں (علی) نے ہر باب سے ہزاز ہزار باب مزید سیکھ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ  نے خود کو علم و حکمت کا شہر اور امیر المومنینؑ کو اس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ اور پھر کہا کہ جو شخص علم و حکمت حاصل کرنا چاہے اسے دروازے سے آنا پڑے گا۔

    رسول اللہ (ص) نے اپنے دل کی ٹھنڈک اور اکلوتی دختر حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا کا نکاح فرمان خداوندی سے حضرت علی ؑسے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا کا ہمسر، کفو اور برابر کوئی موجود نہ تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؑو حضرت فاطمتہ الزھرا (س) کو ایک دوسرے کے لئے خلق فرمایا۔ اور پھر دین مبین اسلام کی خدمت و بقا کی خاطر اللہ تعالی نے حضرت علی ؑاور حضرت زہرا(س)کو امام حسن ؑو امام حسین ؑاور جناب زینب اور بی بی ام کلثوم (سلام اللہ علیہما) کی صورت میں اولاد عطا کی۔

    قرآن و سیرت اور احادیث رسول (ص) میں امیر المومنین حضرت علی ؑاور اہلبیت ؑکی شان و عظمت کی وضاحت کے باوجود پتہ نہیں کیوں رسول اللہ (ص) کے وصال کے فوراً بعد دشمنان خدا نے اہلبیت رسول (ص) بالخصوص حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا (س) اور امیرالمومنین ؑپر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے حتٰی کہ خاتون جنت دختر رسول (ص) زوجہ امیرالمومنین ؑجناب فاطمہ بتول سلام اللہ علیہ کو یہاں تک فریاد کرنا پڑی۔ کہ اے میرے بابا (ص) آپکے جانے کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑی کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتیں تو وہ بھی تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتیں۔ اور پھر اسکے بعد بھی اہلبیت اطہار ؑو آل رسول (ص) پر اسلام کے لبادے میں موجود دشمنان اسلام خوارج، بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔ کسی شاعر نے ان مظالم کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔

     

    اک علی ؑکی دشمنی کیا کیا ستم ڈھا گئی

    بدر کی دشمنی چلتے چلتے کربلا تک آگئی

    جب میدان کربلا میں سید الشہدا حضرت امام حسین ؑنے افواج یزید لعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نواسۂ رسول (ص) ہوں اسکے باوجود تم لوگ میرے قتل کے پیاسے کیوں ہو۔ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ دراصل ہم اپنے ان آباء و اجداد کا بدلہ لینے آئے ہیں جن کو تمہارے بابا علی ؑنے جنگ بدر و احد میں مار ڈالا تھا۔ یعنی نعوذ باللہ رسول اللہ (ص) اور اسلام کی حمایت و دفاع کرکے دراصل امیر المومنین ؑنے جرم کیا تھا جس کا بدلہ یہ ہے۔

    کیا بدبختی کی انتہا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی اس واضح حدیث، کہ علی ؑحق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑکے ساتھ، خدایا حق کا رخ ادھر موڑ دے جس طرف علی ؑجائے، کے باوجود بھی دشمنان دین اسلام نے امیرالمومنین ؑکو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہو۔ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد ایک دفعہ حضرت بی بی فاطمہ الزھرا س نے حضرت علی ؑسے پوچھا کہ اے ابو الحسن ؑسنا ہے، کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا۔ تو مولائے متقیان ؑنے مظلومیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا آپ نے غلط سنا ہے، بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دور کی بات، جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔

    خوارج کے فتنے نے امیر المومنین حضرت علی ؑکے مقابلے میں سر اٹھایا اور یہاں تک کہ اس فتنے نے خلیفہ رسول (ص) امیر المومنین ؑکو مسجد و محراب میں دوران عبادت شہید کر دیا۔ نماز، روزہ اور دوسری تمام عبادات کی ادائیگی کے علاوہ خوارج میں سے ایک بڑی تعداد حافظان قرآن کی تھی، مگر حال یہ تھا کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر اسلام کے لبادے میں ظلم و جبر اور عوام الناس پر دہشت گردی کا بازار گرم کرکے یہ شعار اور نعرہ بلند کرتے تھے کہ لا حکم الا للہ۔ ۔ یعنی حکومت صرف اللہ کے لئے ثابت ہے۔

    امیرالمومنین امام علی ؑخوارج کے اس نعرے کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ نعرہ اور شعار تو برحق ہے لیکن اس کے پیچھے خوارج کے مقاصد باطل اور فساد پر مبنی ہیں۔ انہی خوارج کی طرح ہم اگر آج بھی اپنے ارد گرد پوری دنیا بالخصوص مملکت خداداد پاکستان میں اسلام کے نام اور لبادے میں خوارج نما القاعدہ و طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی افعال و کردار اور دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو فتنہ خوارج کا عکس اپنا نظارہ پیش کرتا ہوا نطر آئے گا۔

    امیر المومنین ؑپر اسلام کے لبادے میں خوارج اور بنی امیہ کے ظالم و جابر ملوکیتی حکمرانوں کے مسلط مظالم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام اور اولاد رسول (ص) اہلبیت اطہار ؑپر لعن طعن کے لئے کئی ہزار مساجد کے منبر و محراب درہم و دینار سے خریدے گئے تھے۔ جہاں سے باقاعدہ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر امیر المومنین علیہ السلام اور اولاد رسول (ص) پر لعن طعن کی جاتی تھی۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ جب انیس رمضان کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے لئے آنے والے امیر المومنین حضرت امام علی ؑپر اس وقت کے شقی ترین انسان ابن ملجم لعین نے سجدے میں وار کرکے مسجد کوفہ کے محراب کو خون میں تر کر دیا۔ اور جب یہ خبر کوفہ سے باہر دیگر علاقوں بالخصوص ملوکیت اور بنی امیہ کے پایہ تخت شام تک پہنچی کہ امیر المومنین ؑمسجد کوفہ میں شہید ہو گئے، تو لوگ ایک دوسرے سے تعجب سے پوچھنے لگے کہ علی مسجد میں کیا کر رہے تھے۔ ۔ ؟؟ جب بتایا گیا کہ نماز فجر پڑھنےگئے تھے تو لوگ اور زیادہ تعجب سے پوچھنے لگیں کہ کیا علی ؑنماز پڑھتے تھے؟  یہ تھا اسلام کے لبادے میں مسلط خوارج و بنی امیہ کے پروپیگنڈے اور اس زمانے کی باطل میڈیا کا کردار کہ اپنے ناجائز مفادات اور اقتدار کے حصول کے لئے خلیفہ وقت امیر المومنین ؑعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے سے اتنا غلیظ اور گمراہ کن منفی پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ زمانے کی متقی ترین ہستی کو  نعوذ باللہ بے نمازی اور لا دین قرار دے کر عوام میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ اس سے خوارج اور بنی امیہ کی اسلام دشمنی اور بغض و عداوت امیر علیہ السلام اور اہلبیت اطہار رسول (ص) کا پتہ چلتا ہے۔

    انیس رمضان نماز فجر کے وقت خوارج و بنی امیہ کی زہر میں ڈوبی تلوار کے زخم کے بعد مسجد کوفہ میں امیر المومنین ؑنے یہ جملہ ادا کیا۔" فزت و رب الکعبہ " (رب کعبہ کی قسم علی ؑکامیاب ہو گیا)، اور اسکے دو دن بعد اکیس رمضان المبارک کو امیر المومنین ؑحضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلام شہید ہو گئے اور یوں علی ؑکا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہو کر مسجد کوفہ میں شہادت تک ہر لمحہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی و رضا کی خاطر بسر ہو کر رہتی دنیا تک مینارہ نور بن گیا۔