سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    15 شعبان (1437ھ)ولادت امام مہدی علیہ السلام کے موقع پر


    انتظار کے طریقے اور ہماری ذمہ داریاں

    حضرت مہدی(عج) کا انقلاب تاریخ بشریت میں ایک عظیم انقلاب ہے۔تاریخی انقلابات سے متعلق  مندرجہ ذیل دو نظرئے پائے جاتے ہیں جس میں ہر ایک کی بنیاد پر انتظار کا خاص معنی بن جاتا ہے:
    پہلا نظریہ :یہ ہے کہ تاریخی تحولات ضابطہ مند نہیں ہیں اور اگر ضابطہ مند ہوں بھی تو ان میں انسانی ارادے کا کوئی کردار نہیں اور تاریخ پر جبری سلسلہ حاکم ہے جو اس عقیدے پر ہو کہ تاریخی تحولات ضابطہ مند نہیں اسے حتمااس بات کا بھی قائل ہونا چاہیے کہ یہ تحولات شناخت کے قابل بھی نہیں ہیں۔ پس حضرت مہدی (عج)کے قیام کو بھی تحلیل نہیں کیا جاسکتاتو اس صورت میں انتظار کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک عجیب وغریب حادثہ کا منتظر رہنا اور خود کچھ نہ کرنا بلکہ غیبی امداد کا  منتظر رہنا یعنی ایک غیبی ہاتھ بڑھے اور تمام کاموں کو انجام دے۔اسی مقام پر ظہور سے متعلق احادیث میں نادرست تأویلات کا باب کھل جائے گا یہاں تک کہ بعض کہیں گے:چونکہ حضرت کے ظہور کے لیے جہاں کو ظلم وستم سے پر ہونا ہے لہٰذا ہمیں بھی ظلم و ستم کے رواج میں مدد کرنا چاہیےاور جو اس نظریہ کا قائل ہو کہ یہ تمام تحولات ضابطہ مند ہیں لیکن ان میں انسانی ارادہ کو کوئی عمل دخل حاصل نہیں تو اس کے لیے بھی اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ یہ ہم کچھ نہیں کرسکتے اور اس مسیر میں تنہا حرکت جبری ہوگی یہ منطق بھی مردود و باطل ہے۔

    اس نظریہ کی روشنی میں قیام حضرت مہدی(عج) کی ماہیت انفجاری ہوگی جو فقط اور فقط ظلم و ستم کے پھیلنے سے ناشی ہوگی۔لہٰذا جب اصلاح صفر تک پہنچ جائے اورحق و حقیقت کا کوئی بھی طرفدار باقی نہ رہے اور باطل تک و تنہا میدان میں ہو تک یہ انفجار ہوگا اور غیبی ہاتھ حقیقت کو (اہل حقیقت کو نہیں چونکہ حقیقت کا تو کوئی بھی طرفداد نہیں ہوگا) نجات دینے کے لیے اپنی آستین چڑھائے۔

    دوسرا نظریہ :یہ ہے کہ تاریخی تحولات ضابطہ مند ہیں اور انسانی ارادہ اس میں اپنا باقاعدہ کردار رکھتا ہے اس نظریہ  کی بھی دو طرح سے تصویر کشی ہوسکتی ہے اور شاید اسی تفاوت انتظار کے مسئلے میں ڈاکٹر علی شریعتی اور استاد مرتضیٰ مطہری کے نظریات میں بھی تفاوت معلوم ہوجائے۔

    ایک تصویرExistentalismکی ہے اس تصویر میں انسان کا ارادہ اہم کردار ادا کرتا ہےلیکن انسان سے بڑھ کر کسی ہدف کا قائل نہیں ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ خود انسان کو اپنے لیے ہدف خلق کرنا چاہیے۔
    حقیقت میں ان کی نظر کے مطابق انسان سے ہٹ کر ہر ہدف اور حرکت کو تسلیم کرنے کا لازمہ خود گذشتگی وبیگانگی ہے۔ لہٰذا پہلے سے انسان کے لیے کسی ہدف کا قائل نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر کوئی اپنے لیے جو چاہے ہدف انتخاب کرے اور اس تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہولیکن اس نظریہ سے متعلق اعتراض اگر پہلے نظریہ سے زیادہ نہ ہوں تو کم بھی نہیں ہیں اور سب سے اہم اعتراض یہی ہے کہ بطور دقیق اس طرح تو ہدف کی آفریشن سے متعلق سخن ہی باطل و بیہودہ ہوگی۔کیا یہ معقول ہے کہ انسان یہ فرض کرلے کہ اس کے سامنے کوئی ہدف نہیں اور پھر اس فرضی ہدف تک پہنچنے کے لیے کوشش کرے یہ تو عین اسی طرح ہے جس طرح یہ بت پرست لوگ پہلے خود اپنے ہاتھوں سے بتوں کو بناتے ہیں پھر ان کی عبادت کرتے ہیں اور انسان کو اس سادہ لوح شخص کی یاد دلاتے ہیں جو بچوں کی آزار و اذیت سے بچنے کے لیے انھیں کہتا ہے کے اگلی گلی میں کچھ تقسیم ہورہا ہے جب سب بچے اس گلی کی طرف بھاگنے لگے تو یہ شخص بھی خود سے سوچنے لگا شاید واقعا ہی کچھ تقسیم ہو رہا ہے اور پھر خود بھی اسی گلی کی طرف بھاگنے لگا۔فرضی ہدف کا کوئی معنی نہیں بلکہ ہدف کو واقعی ہونا چاہیےلیکن انسان کے وجود کی گہرائیوں سے لیا گیا ہو یعنی اس طرح سے ہو کہ اس کی طرف حرکت انسانی کمال کی طرف حرکت کہلائے نہ کہ کسی بیگانہ مقصد کی طرف حرکت ہو،اس مطلب کو استاد شہید مرتضیٰ مطہری نے اپنی کتاب ’’تکامل اجتماعی  وانسان‘‘بطور اختصار جبکہ اپنی دوسری کتاب’’سیری در نہج البلاغہ‘‘میں اس پر تفصیلاً اعتراضات بیان کیے ہیں۔

    بہرحال، اس معنی میں انتظار کا معنی ہمیشہ کی ہر وضعیت پر اعتراض ہے جس کا لازمہ انقلاب ہے یعنی اگر کسی خاص و معین ہدف کو تسلیم نہ کیا جائے تو اس وقت انسان کو ہر حالت پر اعتراض کرنا چاہیے اور کسی بھی ایسے ہدف کو جسے بعض نے قبول کیا ہو قبول نہ کرے کیونکہ انتظار ختم ہو چکا ہے اور ہمارے عقیدے کے مطابق ڈاکٹر علی شریعتی کانظر یہ مکتب اعتراض  جسے انہوں نے اپنی کتاب ’’انتظار‘‘میں بیان کیا یہی ہے۔
    اس نظریہ کی دوسری تصویر میں کہنا پڑے گا کہ : یہ صحیح ہے کہ  انسان کا ارادہ تاریخی تحولات میں اہم کردار رکھتا ہے لیکن اصالت فطرت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اور انسان کے اندر واقعی ہدف کی طرف جستجوسے یہ انتظار خاص مطلب پیدا کر لیتا ہے اور وہ یہ کہ اولاً تو حق و باطل میں تشخیص کرنا ممکن ہے اور ثانیاً منتظر کا اصلی وظیفہ حق کے قلعہ کو مضبوط کرنا اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا کہ حق و باطل کے حدود پہلے سے مزید مشخص تر اور واضح تر ہو جائیں اس کے نتیجہ بخش ہونے کے لیے عظیم عالمی جنگ ہوگی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انتظار فردی اور اجتماعی لحاظ سے نہ فقط یہ کہ سلبی حالت نہیں بلکہ ایجابی فعل ہےجس کا سایہ ہمارے تمام افعال پر ہے اسی وجہ سے افضل الاعمال شمار کیا گیا ہے۔

     فردی اعتبار سے صرف وہی شخص حقیقتا و واقعاً حکومت عدل کا منتظر ہوسکتا ہے جس میں خود عدل سے مناسبت وسنخیت پائی جائےفقط وہی شخص بین الاقوامی عدالت کا انتظار کرسکتا ہے جو عدالت ہو پسند کرتا ہو سب سے پہلے درجہ میں خود اہل عدل سے ہو اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ (مصلح کے منتظریں کو خود صالح ہونا چاہیے) اور اجتماعی اعتبار سے بھی ہر وہ اصلاحی اقدام جو جو حق کی فتح و کامیابی کا باعث بنے وہ تمام منتظریں کا وظیفہ ہے۔پس جزئی اور تدریجی اصلاحات نہ فقط یہ کہ مذموم نہیں ہیں بلکہ اپنی جگہ پر تاریخ کی اہل حق کے نفع میں حرکت کو تیز تر کر دے گی اور اس کا برعکس نتیجہ دےگا۔

    یعنی فساد،تباہی،فسق وفجور مقابل طاقت کے لیے مدد گا ثابت ہوں گے اور اہل حق کی تاریخی حرکت میں ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ پس اس طرز تفکر میں وہ چیز جسے ہونا چاہیے وہ درخت کی شاخوں  پر پھل کا پکنا ہے نہ کہ کسی بمب کا پھٹنا۔جس قدر بہتر درخت کو پانی دیا جائے گا اس کا خیال رکھا جائے گا اس کے بیماریوں کا جس قدر جلد علاج کیا جائے گا اس کا پھل اسی مقدار میں بہتر،سالم اور ممکن ہے جلدی ثمرہ بخش ہوجائے۔
    اس طرح ہمارا وظیفہ گلوبلائزیشن  سے متعلق واضح ہو گیا اسلامی نقطۂ نظر سے گلوبلائزیشن کا مطلب عالمی سطح پرعدل کی حکومت کا قائم ہونا ہے جس کا مطلب حق باطل کے درمیان حتمی فیصلہ کن جنگ ہے اس جنگ کے لیے حق کی قوہ کو مضبوط کرنا چاہیے جس طرح امام خمینی ؒ نے اپنے ایک تقریر میں کہا تھا:’’ہم اپنے اس انقلاب کو دنیا کی طرف صادر کریں گے‘‘لیکن اس نقطہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس  مضبوطی  میں نظامی و فوجی قوت سے زیادہ ثقافتی و معنوی قوت کی ضرورت ہے چونکہ اس ہویت کی بنیاد ہی معنویت پر استوار ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حق و عدالت کو جس قدر واضح و آشکار تر کرکے لوگوں کی استعداد اور فہم کو بھی حق کے مقابلے میں تقویت کرنا ہے اس  کہ لوگوں میں حکومت عدل کو تحمل کرنے کی توان پیدا ہو جائے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حضرت مہدی(عج)حضرت علی علیہ السلام سے بالاتر نہیں یعنی حکومت عدل مہدی(عج) کی خاصیت اس حکومت کا عامل و فاعل(حضرت مہدی)میں نہیں بلکہ قابل کی طرف لوٹتی ہے یعنی حضرت مہدی(عج)کے زمانے میں لوگ بلوغ فکری کی اعلیٰ حدود تک پہنچ چکے ہوں گےتاکہ حق کو باطل سے تشخص دے سکیں تاکہ دشمنوں کے مقابلے تسلیم نہ ہوجائیں جن کو ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ حق کے چہرہ کو چھپا دیا جائے اور لوگوں کو اس سے منحرف کردیا جائےاور اس کی جگہ باطل کو حق سے ملاوٹ کر کے لوگوں کو پیش کیا جائے۔
    اکثر اوقات لوگ حق و باطل میں فرق نہیں کرپاتے جس کی وجہ سےحق و باطل دونوں سے جنگ کرتے ہیں اور اس طرح سے اپنے عقیدے کے مطابق حق کی تلاش میں ہوتے ہیں جسے حضرت سید الاصیاء علیہ السلام نے اس طرح سے بیان فرمایا ہے:’’فلو أن الباطل خَلَصَ مِن مزاج الحق لم یَخْفِ علی المرتادین و لو أنّ الحق خلص مِن لَبس الباطل، انقطعَتْ عنه السُن المُعاندین، ولکن یُوخَذ مِن هذا ضِغثٌ و مِن هذا ضغثٌ فَیُمزَجان، فهنالک یستولی الشیطان علی اولیائه، و ینجو الذین سبقت لهم من الله الحسنی‘‘()اگر باطل حق کی آمیختگی سے جدا ہوجائے تو شک کرنے والوں پر بھی اس کا باطل ہونا مخفی نہیں رہے گا اور اگر حق باطل کا وہ لباس اتار آئے جو اسے پہنایا گیا ہے تو معاندلوگوں کی زبان اعتراض( جو اس پر کھولتے ہیں) سے آزاد ہوجائے گا لیکن اعتراض تو اس بات پر ہے کہ کچھ اس سے لیتے ہیں اور کچھ اس سے اور پھر دونوں کو مخلوط کر تے ہیں یہاں پر شیطان ان لوگوں پر مسلط ہوجاتا ہے جنہوں نے اس کی ولادت کو تسلیم کرلیا ہو اور وہ لوگ جنہیں خداوندمتعال کی جانب سے نیکی کی طرف سبقت لی ہو نجات پا جائیں گے لیکن حق و باطل کی ملاوٹ ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہی لوگ سطحی درک و شعور تک پہنچے ہوئے ہیں جو حق کے پلیٹ فارم کو باطل سے جدا کرسکتے ہیں اور اس طرح مہدی(عج) کی حکومت کامیاب ہوجائے گی یہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق’’حملوا بصائرهم علی أسیافهم‘‘کے مصداق ہیں۔
    انتظار سے متعلق جو کچھ بیان ہوا اسے مدنظر رکھتے ہوئے بہتر ہے دوبارہ اس معروف حدیث شریف پر نگاہ ڈالیں جو کہتی ہے کہ حضرت کا ظہور اس وقت ہوگا جب زمین ظلم و فساد سے بھر چکی ہو گی۔اور دیکھیں کہ یہ حدیث ہمارے بیان کردہ مطالب سے کس طرح قابل جمع ہے لہٰذا اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ: 
    اولاً ظلم سے بھرجانا ظہور کی علامات میں سے ہے ظہور کی علتوں میں سے نہیں ہے اور بعض لوگوں نے اس کی تشریح میں یوں کہا ہے کہ’’ظلم کو پھیلانے میں مدد کریں ‘‘اس طرح کی تشریح کرنے کا سبب یہ تھاکہ انھوں نے شیوع ظلم کو حضرت  امام مہدی(عج)کے ظہورکی علت کے طور پر جانا ہےجبکہ ظہور کی علت یہ ہے کہ ظہور کے مقدمات (یعنی حق و باطل کے میدان کا مشخص ہوجانا اور پھر حق کی تقویت کرنا)مہیاہوجائیں۔ علامت شیئ اور علت شیئ میں کاملا فرق واضح ہوجانے کے لیے اس مثال کا سہارا لیتے ہیں:فرض کریں کہ کسی ریلوے اسٹیشن پر ایک ایسا بورڈ نصب ہے جس پر ہر گاڑی کے اسٹیشن پر پہنچنے سے ایک منٹ پہلے اس کے پہنچنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس علان کے بعد وہ گاڑی پہنچ جاتی ہے یہاں پر یہ اعلان اس گاڑی کی پہنچنے کی علامت ہے علت نہیں اور اگر ہم گاڑی کے پہنچنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں گاڑی کے انجن کی مدد کرنی چاہیے جو اس گاڑی کی حرکت کا محرک ہے نہ کہ اس بورڈ کے ٹائمنگ میں تبدیلی کرنا شروع کردیں۔ہم جس قدر بھی اس بورڈ میں تبدیلی کریں گے گاڑی کے آنے میں مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔
    شیوع ظلم سے متعلق بحث بھی اسی طرح سے ہے اس قسم کی علامات خود علت نہیں ہیں۔ظہور سے متعلق مختلف موارد ذکر ہوئے ہیں جیسے دجال کا آنا،ظہور کے لیے ضروری نہیں کہ ہم دجال نامی شخص کو تلاش کریں اور اسکی حمایت کریں کہ کچھ خاص قسم کے ایسے اقدامات کرے جو حضرت کے ظہور کا باعث بنے۔اسی طرح ضروری نہیں کہ حضرت کے ظہور کے لیے ظلم کو پھیلا جائے۔
    ثانیاً جس طرح استاد شہید مطہری نے تذکر فرمایا کہ یہ جو حدیث میں علامات ظہور میں ظلم پر زور دیا گیا ہے یعنی ایک ظالم گروہ کا تذکرہ ہے کہ جس کا لازمہ مظلوم طبقہ کا ہے جن کی حمایت کے لیے حضرت مہدی(عج) ظہور فرمائیں گے۔
    اسلامی نقطہ نگاہ سے مظلوم اور منظلم میں تفاوت ہے دونوں کا تعلق ایسے طبقے سے ہے جن کے حقوق زبردستی چھن گئے ہیں لیکن مظلوم وہ ہے جو خود ظالم کے زیر تسلط نہیں جانا چاہتا تھا لیکن اس میں ظالم کا مقابلہ کرنے کی توان نہیں تھی جبکہ منظلم وہ ہے جو ظالم کا مقابلہ کرنے کی طاقت  رکھتا ہے ایسے شخص کو اپنے حقوق کے دفاع کے لیے خود قیام کرنا چاہیے جب تک وہ خود قیام نہ کرے ایسے شخص کی مدد کرنا معقول نہیں ہے۔یعنی اسلام میں جس طرح ظلم کرنا مذموم ہے اسی طرح منظلم ہونا ٹھہرنا بھی مذموم ہے اسی لیے حضرت سید الاوصیا علیہ السلام کے لیے کہا جاتاہے: ’’لاتَظلمون و لا یُظلَمون‘‘ نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ہی مظلوم واقع ہوتے ہیں۔

    ثالثاً ہمارے خیال میں یہ وضاحتیں جو حق کے پلیٹ فارم کی تقویت میں دی گئیں(یہی کہ مہم ذمہ داری لوگوں کا عدل کی نسبت ادراک و شعور بیدار کرنا اور اسے حق و باطل کی پہچان میں عالی درجات تک پہنچانا ہے)کہا جا سکتا ہے کہ: شاید زمین کا ظلم سے بھر جانے سے مراد لوگوں کا ادراک و شعور کی نسبت ہو نہ کہ ظالمانہ خارجی افعال سے یعنی مراد یہ ہے کہ لوگ اس سطح پر پہنچ جائیں گے کہ وہ ایسامحسوس کریں گے کہ زمین ظلم سے بھر گئی ہے اور اب ظلم کو تحمل نہیں کیا جا سکتا اسی لیے عدل کا انتظار کریں گے۔

    یہ مسئلہ مزید واضح و روشن ہو جائے بشر کی تاریخ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے مثلا فرعون کے زمانے کے لوگ بہت عظیم ظلم میں مبتلا تھے لیکن کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ اس ظلم کے خلاف جدی طور پر معترض نہیں تھے گویا کہ ان حالات پر راضی تھے مزید بہتر موازنہ کرنے کے لئےاس طرح کہتے ہیں کہ اگر تمام دنیا میں ہونے والی مظالم کو۵۰ سال پہلےوالی دنیا سے مقایسہ کیا جائے تو شاید اس کی مقدار زیادہ نہ ہوئی ہو لیکن آج کے زمانے کے لوگوں کی ظلم کی نسبت حساسیت اس زمانے سے کہیں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔وہ جنایات جو امریکہ نے ویتنام میں انجام دیے شاید وہ سلسلہ مراتب میں ان جنایات سے کہیں زیادہ ہوں جو امریکہ نے عراق میں انجام دیا ہو لیکن دنیا ان جنایات کے مقابلے میں جو اعتراض کر رہی ہے وہ اس ویتنام والی جنایات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
    رابعا اس حدیث کے ساتھ دوسری احادیث بھی ہیں جن میں ظلم نہ ہونے کی تصریح ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ سعید اور شقی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے یعنی بحث یہ ہے کہ  اشقیا اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے نہ یہ کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اسی طرح جس طرح  اسلامی  روایات میں گروہ زبدہ سے متعلق گفتگو و بحث ہے یعنی امام کے ظہور کے ساتھ ہی ایک زبدہ افراد کا گروہ حضرت کےساتھ ملحق ہوگا۔معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے شایع اور رائج ہونے کے باوجود ایسی شرایط موجود ہوں گی جن میں ایسے گروہ کی تربیت کی جاسکے یہی اس مطلب کی صراحت کررہا ہے کہ فقط حق و حقیقت کے صفر درجہ پر ہی نہیں پہنچے گا بلکہ اگر اہل حق کمیت کے اعتبار سے قابل توجہ نہ ہوں تو کیفیت کے اعتبار سے اہل ایمان میں لائق ترین افراد حضرت سید الشہداء کے اصحاب کی مانند ہوں گے۔اس کے علاوہ اسلامی روایات میں حضرت کے قیام اور ظہور کے مقدمات میں اہل حق  کی جانب سے کچھ دوسرے قیام بھی رونما ہوں گے جو قطعی طور پر خود بھی بغیر شرائط کے قیام نہیں کریں گے یہاں تک کہ بعض روایات میں اس طرح سے بھی نقل ہوا ہے کہ حضرت مہدی(عج) کے قیام سے پہلے حق و عدالت پر مبنی ایک حکومت بھی ہو گی جو حضرت کے ظہور تک جاری رہے گی۔