سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/10/9 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    13رجب (1441ھ) ولادت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کےموقع پر

    ولادت حضرت امیرالمومنین   علیہ السلام 

    حضرت على علیہ السلام 13 رجب بروز جمعہ ' عام الفيل كے تيسويں سال ميں ( بعثت سے دس سال قبل) 

    خانہ كعبہ ميں پیدا ہوئے۔

     خانہ کعبہ ایک قدیم ترین عبادت گاہ ہے اس کی بنیاد حضرت آدم  علیہ السلام  نے ڈالی تھی اور اس کی دیواریں حضرت ابراہیم  علیہ السلام  اور حضرت اسماعیل  علیہ السلام  نے بلند کیں۔ اگر چہ یہ گھر بالکل سادہ ہے نقش و نگار اور زینت و آرائش سے خالی ہے فقط چونے مٹی اور پتھروں کی ایک سیدھی سادی عمارت ہے ، مگر اس کا ایک ایک پتھر برکت و سعادت کا سرچشمہ اور عزت و حرمت کا مرکز و محور ہے ۔

    خدا وند عالم فرماتا ہے۔"جَعَلَ اللّٰہُ الکعبۃ البیت الحرام"اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو محترم گھر قرار دیا ہےخانہ کعبہ کی عزت و حرمت دائمی اور ابدی ہے ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس کی عزت و حرمت تھی اب نہیں ہے ۔ بلکہ جس وقت اس کی بنیاد رکھی گئی اسی وقت سے اسے بلند اور با عظمت و غیر معمولی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور آج بھی اس کی مرکزیت و اہمیت اسی طرح قائم و دائم ہے۔

    یہ حسن نیت و پرخلوص عمل کا نتیجہ تھا کہ خانہ کعبہ کو تمام جزیرہ عرب میں مرکزی عبادتگاہ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہر گوشہ و کنار سے لوگ کھینچ کر آنے لگے۔

    یہ وہی محترم و پاک و پاکیزہ اور با عظمت گھر ہے جس میں مولائے متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام پیدا ہوئے۔تمام علماءو مو رخین اہل سنت وشیعہ نے با اتفاق لکھا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔

     یہ منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے۔" لم یولد قبلہ و لا بعدہ مولود فی بیت الحرام"نہ کوئی  حضرت علی  علیہ السلام  سے پہلےپیدا ہوا  اور نہ آپ ؑ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوگا۔

    حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات

    حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت آپ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہے ۔یہ حضرت علی علیہ السلام کی مخصوص خصوصیت ہے نہ اس سے پہلے کسی کویہ شرف نصیب ہوا ہے اورنہ اس کے بعدہوگا ۔

    حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام ﷺ  کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبرﷺ کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر ﷺ  کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی ۔

    آپ کی شادی مبارک حضور اکرم ﷺ  کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی ۔

    حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تھیں۔ جتنے اقوال  حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔

    حضرت علی ؑ میں وہ تمام خصوصیات  ایمان، تقوا، علم ، زہد، شجاعت ،سخاوت ...اور دیگر تمام فضائل نہایت اعلی درجہ کے موجودہیں ، یعنی میں اور آپ ان کے لئے جتنادرجہ دے سکتے ہیں دیں تو ان کا عالی ترین درجہ حضرت علی ؑ کے وجود شریف میں موجود ہے، اور یہ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں دوستداران اور ماننے والے اور عاشق تو پہلے ہی سے قائل تھے مگر آپ ؑ کے دشمن اور آپ ؑ سے کدورت رکھنے والے بھی ان فضائل کا اقرار کرتے ہیں ۔

     امام علی علیہ السلام اور قرآن

    رسول اللہ (ص) کے فرامین کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن اور اہل بیت (ع) ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دونوں مل کر انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے مینارہ نور ہیں۔ ان کے دامن سے تمسک ہی ابدی سعادت و کامیابی کی ضمانت ہے۔  کیونکہ آنحضرت (ص) نے اپنی مشہور حدیث ثقلین میں ارشاد فرمایا کہ:"انی اوشک ان ادعی فاجیب، وانی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ، وعترتی، کتاب اللہ حبل ممدود من السماءالی الارض، وعترتی اھل بیتی، وان اللطیف الخبیر اخبرنی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بما تخلفونی فِیھِما،

    یعنی: "مجھے جلدی دعوت دی جانے والی ہے اور میں اس پر لبیک کہنے والا ہوں، میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت، کتاب الٰہی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے۔ میری عترت، میرے اہل بیت ہیں، اور لطیف و خبیر اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) تک پہنچ جائیں۔ پس تم دیکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرو گے۔"

    علی علیہ السلام اہل بیت (ع) کی اہم شخصیت ہیں، اس حدیث میں انہیں اور قرآن کو لازم و ملزوم، اور علی (ع) کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ اِسی مطلب کو پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: "علی مع القرآن، و القرآن مع علی، لا یفترقان حتی یردا علی الحوض" یعنی: "علی (ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہیں، یہ دونوں آپس میں جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں"

    قرآن مجید میں موجود علوم و معارف اور حقائق الہیہ کے بھی آپ سب سے بڑے عالم تھے اور پہلے حافظ قرآن بھی تھے۔

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں: "اتفق الکل علی ان علیاً (علیہ السلام) کان یحفظ القرآن علی عھد رسول اللہ ص ولم یکن غیرہ یحفظہ"

    یعنی: "اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی علی (ع) قرآن کے حافظ تھے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا حافظ نہ تھا۔"

    علی (ع) وہ واحد ذات ہیں، جن کو رسول اکرم (ص) نے قرآن کے بارے میں وصیت فرمائی، اگرچہ قرآن امت کے حوالے ہو گیا تھا اور پورا قرآن امت کے پاس موجود تھا، مگر اس کا محمدی (ص) نسخہ بیت مصطفی (ص) میں موجود تھا، اس نسخہ کے وارث علی ابن ابیطالب (ع) تھے۔ اس بنا پر رسالت ماب نے قرآن ان کے حوالے کیا اور اُسے جمع کرنے کی وصیت فرمائی۔ چنانچہ ابن شہر آشوب، ابو رافع سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا  (ص) نے مرض الموت میں فرمایا:"یا علی ھذا کتاب اللہ خذہ الیک" فجمعہ علی (علیہ السلام) فی ثوب، فمضٰی الی منزلہ، فلما قبض النبی، جلس علی (ع) فالفہ کما انزلہ اللہ و کان بہ عالما"

    یعنی: "اے علی یہ کتاب خدا ہے، اسے اپنے پاس لے جا" چنانچہ حضرت علی (ع) نے قرآن کو ایک کپڑے میں جمع کیا اور اپنے گھر لے گئے، رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد آپ نے اس طرح قرآن کی تالیف فرمائی جیسے اللہ تعالٰی نے نازل فرمایا تھا اور آپ اس کو بخوبی جانتے تھے۔"