سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    ۲۸صفر المظفر(1441ھ) حضرت رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے موقع پر

    ۱۱ہجری  ۲۸ صفر سوموار کے دن رسول اکرم ﷺکی وفات ہوئی ،جبکہ آپ کی عمر شریف تریسٹھ ۶۳ سال تھی ۔چالیس سال کی عمر میں آپ تبلیغ رسالت کیلئے مبعوث ہوئے ،اس کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے ترپن برس کی عمر میں آپ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پھر ان کے دس سال بعد آپ نے اس دنیاء فانی سے رحلت فرمائی امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بنفس نفیس آپ کو غسل و کفن دیا حنوط کیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی پھر دوسرے لوگوں نے بغیر کسی امام کے گروہ در گروہ آپ کا جنازہ پڑھا، بعد میں امیرالمؤمنین علیہ السلام نے آنحضرت ﷺکو اسی حجرے میں دفن کیا، جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی ۔

    فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا باپ کی خدمت میں:

    غم سے نڈھال فاطمہ زہرا آئیں، اپنے والد کو حسرت سے دیکھنے لگیں کہ وہ عنقریب اپنے رب سے جا ملیں گے، پریشان حال میں باپ کے پاس بیٹھ گئیں، آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے : "وابیض یستسقی الغمام بوجہہ  ثمال الیتامیٰ عصمة الارامل " نورانی چہرہ جس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان ہے ۔

    اسی وقت رسول نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور آہستہ سے فرمایا: بیٹی یہ تمہارے چچا ابو طالب کا شعر ہے، اس وقت یہ نہ پڑھو بلکہ یہ آیت پڑھو:

    "و ما محمّد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرّسل افان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ینقلب علیٰ عقبیہ فلن یضر اللّہ شیئا و سیجزی اللّہ الشاکرین"

    اور محمد تو بس رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں پھر اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو کیا تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے؟ یاد رکھو جو بھی ایسا کرے گا تو وہ خدا کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا شکر گذاروں کو عنقریب جزا دے گا۔

    اس طرح رسول خدا اپنی بیٹی فاطمہ کو ان افسوسناک حوادث کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے جو عنقریب رونما ہونے والے تھے یقینا یہ چیز حضرت ابو طالب کے قول سے زیادہ بہتر تھی۔

    اس کے بعد نبی کریم نے اپنی بیٹی کو قریب آنے کا اشارہ کیا تا کہ آپ سے کچھ گفتگو کریں، فاطمہ زہرا  (س)جھک کر سننے لگیں، آنحضرت نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں، پھر آپ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرانے لگیں، صورت حال سے بعض حاضرین کے اندر تجسس پیدا ہو گیا، انہوں نے فاطمہ زہرا سے دریافت کیا آپ کے رونے اور پھر مسکرانے کا کیا راز ہے ؟ آپ نے فرمایا؛ میں رسول کے راز کو افشا نہیں کروں گی۔

    لیکن جب رسول خدا کی وفات کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا:" اخبرنی رسول اللّہ  انّہ قد حضر اجلہ و انہ یقبض فی وجعہ ھذا فبکیت ثم اخبرنی انّی اوّل اھلہ لحوقاً بہ فضحکت"۔

    مجھے رسول خدا نے یہ خبر دی تھی کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے اور اسی مرض میں آپ دنیا سے اٹھ جائیں گے تو یہ سن کر میں رونے لگی پھر مجھے یہ خبر دی کہ ان کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملحق ہوں گی تو میں مسکرائی۔

    رسول اکرمﷺ کی زندگی کے آخری لمحات

    علی (ع) رسول خدا (ص) کے ساتھ ایسے ہی رہتے تھے جیسے ایک انسان کے ساتھ، اسکا سایہ رہتا ہے ، زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ ان کے ساتھ ہی تھے آنحضرت انہیں تعلیم دیتے اپنا راز بتاتے اور وصیت کرتے تھے۔ آخری وقت میں رسول خدا نے فرمایا: میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ ، علی (ع) کو رسول خدا  (ص)نے کہیں کام سے بھیجا تھا، بعض مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن رسول نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی کچھ دیر بعد علی بھی آ گئے تو رسول خدا نے فرمایا: میرے قریب آؤ، مولاعلی آپ کے قریب آئے تو آنحضرت علی کے سہارے بیٹھ گئے اور ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آپ پر احتضار کے آثار ظاہر ہو گئے اور رسول نے حضرت علی کی گود میں وفات پائی، اس بات کو خود حضرت علی نے اپنے ایک مشہور خطبہ میں بیان فرمایا ہے۔(نہج البلاغہ خطبہ 197)

    رسول اکرمﷺ کی وفات اور تدفین

    آخری وقت میں رسول کے پاس علی ابن ابیطالب ، بنی ہاشم اور ازواج کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، آپ کے فراق میں آپ کے گھر سے بلند ہونے والی آہ و بکا کی آواز سے آپ کی وفات کی خبر سب کو ہو گئی تھی ، سرور کائنات کے غم میں دل پاش پاش تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ بھر میں آپ کی وفات کی خبر پھیل گئی۔ سبھی پر غم و الم کی کیفیت طاری تھی اگرچہ رسول خدا نے اس حادثہ کے لیے انہیں آمادہ کر دیا تھا اور کئی بار اپنے انتقال کی خبر دے چکے تھے اور امت کو یہ وصیت کر چکے تھے کہ وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ علی بن ابی طالب کی اطاعت کریں۔ یقینا آپ کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس سے مسلمانوں کے دل دہل گئے تھے مدینہ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی، رسول کے گھر کے اطراف میں جمع افراد عمر بن خطاب کی بات سے حیرت زدہ تھے وہ تلوار سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ: منافقین میں سے بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اللہ کا رسول مر گیا۔ خدا کی قسم! وہ مرے نہیں ہیں ہاں وہ موسیٰ بن عمران کی طرح اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں۔

    رسول خدا کی رحلت کی خبر نہایت تیزی سے مدینہ میں پھیل گئی، علی علیہ السلام جب غسل و کفن میں مشغول تھے۔  غسل دینے کے بعد پہلے علی علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھی پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے، پھر رسول خدا کو ان کے گھر میں مسجد کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

    پیغمبر داربقاء کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن یہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔