سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    3 رجب (1437ھ)شہادت امام علی النقی علیه السلام کے موقع پر


    3 رجب  (1437ھ)شہادت  امام علی النقی علیه السلام کے موقع پر

    حضرت امام علی النقی علیه السلام کا مضبوط تبلیغی نیٹ ورک:

    حضرت امام علي نقي عليہ السلام نے بياليس سال کي مبارک عمر پائي جس ميں سے بيس سال سامراء ميں بسر ہوئے جہاں آپ کي کھيتي باڑي تھي اور اس شہر ميں وہ کام کرتے اور زندگي گزارتے تھے- سامراء در اصل ايک فوجي چھاؤني کي مانند تھا جس کي تعمير معتصم نے کروائي تھي تاکہ ترکستان، سمرقند اور منگوليا نيز مشرقي ايشيا سے اپنے لائے جانے والے قريبي ترک غلاموں کو، اس ميں رکھا جاسکے البتہ يہ ترک آذربائيجان اور ديگر علاقوں ميں رہنے والے ہمارے ترکوں سے مختلف تھے- يہ لوگ چونکہ نومسلم تھے اس ليے ائمہ عليهم السلام اور مومنين کو نہيں پہچانتے تھے بلکہ اسلام کو بھي بخوبي نہيں سمجھتے تھے- يہي وجہ تھي کہ وہ لوگوں کے لئے پريشانياں کھڑي کرتے تھے اور عربوں يعني بغداد کے لوگوں سے ان کے بہت اختلافات ہوگئے تھے- اسي سامراء شہر ميں حضرت امام علي نقي عليہ السلام کے زمانے ميں اچھي خاصي تعداد ميں شيعہ علماء جمع ہو گئے اور امام عليہ السلام نے ان کے ذريعے امامت کا پيغام پورے عالم اسلام ميں خطوط وغيرہ کي شکل ميں پہنچانے ميں کاميابي حاصل کي- قم، خراسان، رے، مدينہ، يمن اور ديگر دور دراز کے علاقوں اور پوري دنيا ميں ان ہي افراد نے شيعہ مکتب فکر کو پھيلايا اور اس مکتب پر ايمان رکھنے والوں کي تعداد ميں روز بروز اضافہ ہؤا- حضرت امام علي نقي عليہ السلام نے يہ تمام کام ان چھ خلفاء کي خونچکاں شمشيروں کے سائے تلے اور ان کي مرضي کے برعکس انجام ديئے-

    آپ عليہ السلام کي شہادت کے بارے ميں ايک معروف حديث ہے جس کي عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء ميں اچھي خاصي تعداد ميں شيعہ اس طرح سے اکٹھا ہو گئے تھے کہ دربار خلافت انہيں پہچان نہيں پاتا تھا، کيونکہ اگر وہ انہيں پہچان جاتا تو ان سب کو تہ تيغ کر ديتا ليکن چونکہ ان افراد نے اپنا ايک مضبوط چينل بنا ليا تھا اس ليے خلافت بھي ان لوگوں کي شناخت نہيں کر سکتي تھي- ان عظيم شخصيات يعني ائمہ عليهم السلام کي ايک دن کي سعي و کوشش، برسوں کا اثر رکھتي تھي؛ ان کي مبارک زندگي کا ايک دن، معاشرے پر برسوں تک کام کرنے والے ايک گروہ کي کارکردگي سے زيادہ اثر انداز ہوتا تھا-

    ائمہ نے اس طرح دين کي حفاظت کي ہے ورنہ جس دين کے علمبردار متوکل، معتز، معتصم اور مامون جيسے افراد ہوں اور جس کے علماء يحي'ي بن اکثم جيسے افراد ہوں جو دربار خلافت کے عالم ہونے کے باوجود انتہائي درجے کے فاسق و فاجر تھے، ايسے دين کو تو بالکل بچنا ہي نہيں چاہئے تھا اور ان ہي ابتدائي ايام ميں اس کي بيخ کني ہو جاني چاہئے تھي - ائمہ عليهم السلام کي اس جدوجہد اور سعي و کوشش نے نہ صرف تشيع بلکہ قرآن مجيد، اسلام اور ديني تعليمات کا تحفظ کيا؛ يہ ہے خدا کے خالص و مخلص بندوں اور اوليائے خدا کي خصوصيت- اگر اسلام ميں ايسے کمربستہ افراد نہ ہوتے تو بارہ سو، تيرہ سو برسوں کے بعد اسے حيات نو نہ ملتي اور وہ اسلامي بيداري پيدا کرنے ميں کامياب نہ ہوتا؛ بلکہ اسے دھيرے دھيرے ختم ہو جانا چاہئے تھا- اگر اسلام کے پاس ايسے افراد نہ ہوتے جنہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد ان عظيم اسلامي تعليمات کو انساني اور اسلامي تاريخ ميں موجزن کر ديا تو اسلام ختم ہو جاتا اور اس کي کوئي بھي چيز باقي نہ رہتي؛ اور اگر کچھ بچ بھي جاتا تو اس کي تعليمات ميں سے کچھ بھي نہيں بچنا چاہئے تھا؛ يہوديت اور عيسائيت کي طرح، جن کي اصل تعليمات ميں سے تقريبا کچھ بھي باقي نہيں بچا ہے - يہ کہ قرآن مجيد صحيح و سالم باقي رہ جائے، حديث نبوي باقي رہ جائے، اتنے سارے احکام اور تعليمات باقي رہ جائيں اور اسلامي تعليمات ايک ہزار سال بعد، انسان کي وضع کردہ تعليمات سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ظاہر کريں، تو يہ غير معمولي بات ہے جو مجاہدت کي بدولت انجام پائي- البتہ اس عظيم کام کي راہ ميں زد و کوب کئے جانے، اسير ہوجانے اور قتل کئے جانے جيسي باتيں بھي ہيں تاہم ائمہ علیهم السلام انہيں کبھي خاطر ميں نہيں لائے-[1]

    شراب کی محفل اور امام علی النقی علیه السلام :

    دربار شاهی میں عین اس وقت آپ  کی طلبی هوتی هے که جب شراب سے محفل گرم هے  متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب ونشاط میں غرق هیں . اس پر طرہ یہ کہ سرکش, بے غیرت اور جاهل بادشاہ حضرت علیہ السّلام کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا هے .

    حضرت نےنهایت متانت اور صبروسکون کے ساتھ  فرمایا کہ »مجھے ا س سے معاف کرو , میرا میرے آباؤ اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نھیں هوا هے۔

     اگر متوکل کے احساسات میں کچھ  بھی زندگی باقی هوتی تو وہ اس معصومانہ مگر پر شکوہ جواب کا اثر لیتا مگر اس نے کها کہ اچھا یہ نهیں تو کچھ گانی هم کو سنائیے. حضرت نے فرمایا کہ میں اس فن سے بھی واقف نهیں هوں۔ آٓخر اس نے کہا کہ آپ  کو کچھ  اشعار جس طریقے سے بھی آپ  چاھیں بهرحال پڑھنا ضرور پڑھیں گے .جب امام همام کو اس کام پر مجبور کر دیا  تو امام علیہ السّلام نے موعظہ وتبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے دل سے نکلی هوئی پرُ صداقت آواز سے ایسے اشعار پڑھنا شروع کئے جنھوں نے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کردی۔

     یا تو اعلٰی قلل الاجبال تحرسھم                 ارہے پہاڑ کی چوٹی پہ پہرے بٹھلا کر

    واستنز لوا بعد عز من معاقلھم              بلند قلعوں کی عزت جو پست ہو کے رہی

     نادا ہم صارخ من بعد ماد فنوا               صدا یہ ان کو دی ہاتف نے بعد دفن لحد   

     این الوجوہ التی کانت مجعبة                کہاں وہ چہرے ہیں جو تھے ہمیشہ زیر نقاب

    فافصح القبر عنھم حین سائلھم             زبان حال سے بولے جواب میں مدفن

    قد طال ما اکلوا فیھا و ہم شربوا             غذائیں کھائیں شرابیں جو پی تھیں حدے سوا

     غلب الرجال فما اغنتھم القلل               بہادروں کی حراست میں بچ سکے نہ مگر

    الٰی مقابر ہم یا بکسما نزلوا                تو کنج قبر میں منزل بھی کیا بری پائی

    این الاسیرة والتیجان والحلل                   کہاں ہیں تخت, وہ تاج اور وہ لباس جسد

     من دونھا تضرب الاستار و الکلل               غبار جن پہ کبھی آنے دیتے تھے نہ حجاب

    تللک الوجوہ علیھا ادود تنتقل                 وہ رخ زمین کے کیڑوں کا بن گئے مسکن

    فاصبحوا بعد طول الاکل قد اکلوا               نتیجہ اس کا ہے خود آج بن گئے وہ غذا

    اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام علیہ السّلام کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ متوکل کے عیش ونشاط کی بساط الٹ گئی . شراب کے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زارو قطار رونے لگا . یہاں تک کہ خود متوکل ڈاڑھیں مار مار کر بے اختیار رو رہا تھا . جوں هی  یہ گریہ و زاری اور رونا موقوف هوا اس نے امام علیہ السّلام کو رخصت کر دیا اور آپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے .

    همعصر خلفاء:

    دسویں امام(ع) سات عباسی خلیفاؤں یعنی مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے هم عصر رهے۔

    معتصم باللہ کے عھدخلافت۲۲۰ھ میں جب آپ کے والد ماجد امام نهم کو بغداد میں زهر دے کر شھید کردیا گیا تھا اس وقت آپ مدینہ منورہ میں تھے اور خدا کے حکم اور اپنے آباء و اجداد یعنی گزشتہ ائمہ علیهم السلام کے تعارف سے آپ امامت کے منصب پر فائز هوئے اور اسلامی تعلیمات دینا شروع کیں، یهاں تک کہ عباسی خلیفہ متوکل کا زمانہ آ گیا۔

    خلیفہ متوکل عباسی، خاندان رسالت کی دشمنی میں دوسرے خلفاء کے مقابلے میں بے مثال تھا۔ خصوصاً حضرت علی(ع) کا سخت دشمن تھا اور آپ کی شان میں کھلم کھلا توھین آمیز الفاظ کھا کرتا تھا یا آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ اس نے ایک شخص کو مامور کیا ھوا تھا جو بھری محفل میں آپ کی نقلیں اتارا کرتا تھا اور خلیفہ قهقهے مار کر هنسا کرتا تھا۔ ۲۳۷ھ میں اس کے حکم سے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقبرہ، گنبد اور آس پاس کے کئی مکانات کو مسمار کرکے زمین کے ساتھ یکساں کردیا گیا۔ اس کے بعد اس کے حکم سے امام کے مقبرے پر پانی چھوڑا گیا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ امام کے مقبرہ کی جگہ پر ھل چلا کر کھیتی باڑی کی جائے تاکہ امام(ع) کے مزار کی جگہ اور آپ کا نام بالکل مٹ جائیں۔[2]

    متوکل کے زمانے میں علوی سادات کے حالات رقت بار اور ناگفتہ بہ ھوچکے تھے۔ یھاں تک کہ ان کی عورتوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے تک موجود نہ تھے اور بعض کے پاس صرف ایک بوسیدہ سی چادر ھوا کرتی تھی جس کو اوڑھ کر وہ باری باری نماز ادا کیا کرتی تھیں۔[3]

    امام دہم متوکل کے شکنجوں کو برداشت کرتے رهے، یهاں تک کہ وہ اس دنیا سے چلا گیا، اس کے بعد منتصر، مستعین اور معتز باری باری خلیفہ بنے۔ معتز کے ایما ء پر آپ کو زهر دے کر شھید کر دیا گیا۔

    حضرت امام علی النقی کی شهادت : 

    حضرت امام علی النقی علیه السلام سامرا میں غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بعد  3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھائی معتمد عباسی کے هاتھوں  زهر دے کر شہید کیا گیا شہادت کے وقت امام علیہ السلام کے سر هانے ان کے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے سوا کوئي نہ تھا،حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کی شہادت پر بہت روئے اور گریبان چاک کیا اور آنحضرت کا خود هی غسل دیا کفن اور دفن کیا، اور کچھ نادان اور متعصب لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پر تنقید کی کہ آپ  نےکیوں گریبان چاک کیا؟ ، آنحضرت نے ان کو جواب دیا کہ" آپ احکام خدا کے بارے میں کیا جانتے هیں؟ حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے اپنے بھائی هارون علیہ السلام کے ماتم میں گریبان چاک کیا"[4]



    [1] - خامنه ای سید علی ، الحسنین ڈاٹ کام

    [2] - مقاتل الطالبيين ص 395- 396  أبي الفرج الأصفهاني منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها - النجف الأشرف ط  الثانية 1385 - 1965 م

    [3] - مقاتل الطالبيين ص 395- 396  أبي الفرج الأصفهاني منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها - النجف الأشرف ط  الثانية 1385 - 1965 م

    [4] - منتهی الآمال ج2 ص 460شیخ عباس قمی ، سید الشداء انتشارات قدس ط الثانیة 1378ش .