b 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/11/12 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت


    امام حسین(  ع)اور   آپکے با وفا  اصحاب کی شہادت 


    امام حسین علیہ السلام کی قیام  کے اہداف

    سید الشہداء کے فرض منصبی کو ملحوظ رکھا جائے ، آپ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لیا جائے اور اس تحریک کے دوران آپ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام حسین کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے تھی۔

    امام حسین بنی امیہ کے غصبی و مکارانہ اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی ، حدود الہی کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ (ع) دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق ، فاجر ، شرابی اور زانی شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے، امت کے امور ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیئے گئے ہیں کہ جو کسی بھی طرح سے اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق در اصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہذا امام حسین نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کو نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔

    عزاداری سے متعلق ائمہ اطہار (ع) کی ہدایات

    روایات سے ظاہر ہےائمہ معصومین اپنے اصحاب اور ماننے والوں کو عاشورہ محرم غم و اندوہ ، حزن و ملال کے ساتھ گزارنے کی ہدایت کرتے تھے ، مصائب کربلا کے بیان اور انہیں سن کر اشک فشانی کی تاکید کرتے تھے ، ان ایام میں ابا عبد اللہ الحسین کے مصائب کے بیان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔

    ائمہ اطہار اپنے گھروں میں ان مصائب کو سننے، سنانے کا اہتمام کرتے، یہ مصائب سن کر آنسو بہاتے اور اس اشک فشانی پر انتہائی اجر و ثواب اور آخرت میں نجات کی نوید بھی دیتے تھے۔

    عزاداری کے مراسم سے متعلق علماء کرام کی نصیحتیں

    علمائے امامیہ ایام عزا کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ساتھ عزاداری کی رسوم کو غیر شرعی امور اور نامناسب اخراجات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ لہذا ان علماء نے عزاداری میں صرف ان امور کی شمولیت کو جائز قرار دیا ہے کہ جن سے کسی قسم کے ضرر اور نقصان کا خوف نہ ہو، یعنی وہ مذہب کے لیے نقصان دہ نہ ہوں اور جن پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو، یعنی وہ اظہار غم و اندوہ کے منافی نہ ہو۔ اسی طرح یہ امور مذہب کے تمسخر کا موجب بھی نہ ہوں، یعنی انہیں دیکھ کر لوگوں کو مذہب کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے ، نیز مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا سبب نہ ہوں۔

    حتی علماء نے ایسے مباح امور کو انجام دینے سے بھی اجتناب کی تاکید کی ہے جنہیں دیکھ کر مخالفوں کو خوامخواہ سوال و اعتراض اٹھانے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا موقع ملے۔

    اس تین مصادر کی روشنی میں جو اصول وضع کیے جا سکتے ہیں ، وہ یہ ہیں اور ان پر شدید توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے:

    1- عزاداری پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو۔ اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں۔ تا کہ ایک طرف اس کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیت (ع) کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔

    2- عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہذا اس کے دوران ، خطیبوں و ذاکرین کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علی (ع) ان کے اصحاب ، اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔

    تقاریر اور اشعار ایسے مواد پر مشتمل ہوں جو عزاداروں کو وقت کے حسین اور دور حاضر کے یزید کی پہچان کرائیں، نہ صرف پہچان کرائیں، بلکہ انہیں اس حسین کی مدد نصرت اور اس یزید کی مخالفت پر کمر بستہ بھی کریں۔ عزاداری کا بنیادی اور اصل مقصد بھی یہی ہے۔ حسین ابن علی (ع) اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے کہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کے  امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لا تعلق نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رحجانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔

    3- عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو، دین کو کمزور کرنے والا ہو، مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو، اور ہمارے مذہب کو تماشا بناتا ہو۔