سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/10/9 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    5 شعبان (1436ھ)ولادت باسعادت امام زين العابدين عليه السلام کےموقع پر



    5 شعبان (1436ھ)ولادت باسعادت امام زين العابدين عليه السلام کےموقع پر

    ولادت

      حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب۱مام سجاد علیہ السّلام کی ولادت ہوئی۔ آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور شاید علی علیہ السّلام ہی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے  نام پر علی رکھاتھا ۔

    تربیت

    حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام دوبرس کے تھےجب آپ کے دادا حضرت امیر المومنی علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے . بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ہوئی . اب امامت کی ذمہ داریاں آپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جہاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے . یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پہنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رہےتھے ۔

    شادی

      اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ  کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رہنے کاسامان خود اپنی زندگی میں فراہم کردیا .

    واقعے کربلاکےعینی شاہد

    امام سجاد علیہ السلام کربلا میں حسینی تحریک میں شریک تھے اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہيں ہے لیکن تحریک حسینی کے آغاز کے ایام سے امام سجاد علیہ السلام کے معاشرتی اور سیاسی کردار کے بارے میں تاریخ ہمیں کچھ زیادہ معلومات دینے سے قاصر نظر آرہی ہے ۔ یعنی ہمارے پاس وسط رجب سے ـ جب امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے، مکہ میں قیام کیا اور پھر کوفہ روانہ ہوئے اور 10 محرم سنہ 61 ہجری کو شہید ہوئے لیکن امام سجاد علیہ السلام کے کردار کے بارے میں تاریخ کچھ زیادہ اطلاعات ہم تک پہنچانے سے قاصر ہے اور تاریخ و سیرت اور سوانح نگاریوں میں ہمیں امام سجاد علیہ السلام شب عاشور دکھائی دیتے ہیں اور شب عاشورا امام سجاد علیہ السلام کا پہلا سیاسی اور سماجی کردار ثبت ہوچکا ہے ۔

    امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہيں: شب عاشور میرے والد (سیدالشہداء فرزند رسول امام حسین بن علی علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو بلوایا ۔ میں بیماری کی حالت میں اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ آپ (ع) کا کلام سن لوں۔ میرے والد نے فرمایا: میں خداوند متعال کی تعریف کرتا ہوں اور ہر خوشی اور ناخوشی میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں ... میں اپنے اصحاب سے زیادہ با وفا اور بہتر اصحاب کو نہیں جانتا اور اپنے خاندان سے زیادہ مطیع و فرمانبردار اور اپنے قرابتداروں سے زیادہ صلہ رحمی کے پابند، قرابتدار نہيں جانتا ۔ خداوند متعال تم سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے ۔

    میں جانتا ہوں کہ کل (روز عاشورا) ہمارا معاملہ ان کے ساتھ جنگ پر منتج ہوگا ۔ میں آپ سب کو اجازت دیتا ہوں اور اپنی بیعت تم سے اٹھا دیتا ہوں تا کہ تم فاصلہ طے کرنے اور خطرے سے دور ہونے کے لئے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاسکو اور تم میں سے ہر فرد میرے خاندان کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور سب مختلف شہروں میں منتشر ہوجاؤ تا کہ خداوند اپنی فراخی تمہارے لئے مقرر فرمائے ۔ کیونکہ یہ لوگ صرف مجھ سے سروکار رکھتے ہیں اور اگر مجھے اپنے نرغے میں پائیں تو تم سے کوئی کام نہ رکھیں گے ۔

    اس رات امام سجاد علیہ السلام بیمار بھی تھے اور یہ حقائق بھی دیکھ رہے تھے چنانچہ آپ (ع) کے لئے وہ رات بہت عجیب و غریب رات تھی ۔ آپ (ع) نے اس رات امام حسین علیہ السلام کی روح کی عظمت اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی شجاعت اور وفاداری کے اعلی ترین مراتب و مدارج کا مشاہدہ فرمایا جبکہ آپ (ع) اپنے آپ کو بعد کے ایام کے لئے تیار کررہے تھے ۔

    تقریبا تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کربلا میں بیمار تھے اور یہ بیماری امت کے لئے اللہ کی ایک مصلحت تھی اور مقصد یہ تھا کہ حجت خداوندی روئے زمین پر باقی رہے اور اس کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اللہ عز و جل کی ولایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصایت و ولایت کا سلسلہ منقطع نہ ہو چنانچہ امام سجاد علیہ السلام اسی بیماری کی وجہ سے میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوئے ۔ امام سجاد علیہ السلام اور امام باقر علیہ السلام آل محمد (ص) کے مردوں میں سے دو ہی تھے جو زندہ رہے اور ہدایت امت کا پرچم سنبھالے رہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام اس وقت 4 سال یا اس سے بھی کم عمر کے تھے ۔

    مشاغل زندگی

     واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام کے اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ  پر گریہ , یہی آپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رہیں . آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ہیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نہیں کیا , ہر ہر وقت پر آپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں . جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے . جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رہتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گہبراجاتے تھے . اور انھیں آپ   کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نہیں، قتل ہوگئے ہیں . میں کیسے نہ روؤں ۔

     یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نہایت پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شہادت کاتذکرہ زندہ رہا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ  شہادت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رہا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت وقت کے مصالح کے خلاف ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا ۔

    صحیفہ سجادیہ

     صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا شاہکار اور”عزاداری امام حسین“ آپ کے اشکوں کی یادگار ہے ۔ علمائے اسلام کامتفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم کتاب ، کلام اللہ یعنی ‍ قرآن مجید اور لسان اللہ کی تخلیق ، نہج البلاغہ کے بعد، صحیفۂ سجادیہ الہی حقائق و معارف کا سب سے زیادہ قیمتی خزانہ ہے اسی لئے بعض اسلامی دانشوروں نے اس کو اخت القرآن ، انجیل اہلبیت علیہم السلام اور زبور آل محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب عطا کیا ہے ۔

     امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور قیمتی یادگار آپ کا رسالۂ حقوق ہے جس میں آپ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر مختلف حقوق و فرائض ذکر کئے ہیں۔ ہم امام علیہ السلام کے اسی رسالہ حقوق کےچند جملوں پرختم کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : ”آپ کے ساتھی اور دوست کا آپ پر یہ حق ہےکہ آپ اس پراحسان اور حسن سلوک سے کام لیں اوراگر ایسا نہ کر سکیں تواس کے حق میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ برتیں اس کے خیر خواہ و پشت پناہ رہیں اور رحمت و شفقت کا چشمہ بنے رہیں مشکل و عذاب کا باعث نہ بنیں“