سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/5/1 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • 10 رجب (1444ھ)ولادت باسعادت امام محمدتقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم رجب (1444ھ)ولادت امام محمدباقرعلیہ السلام کےموقع پر
  • ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
  • رحلت حضرت محمداور امام حسن ؑ وامام رضا ؑکی شہادت کے موقع پر
  • 25محرم(1444ہجری)شہادت امام سجاد علیہ السلام کے موقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    17ربیع الاول(1438ھ)میلادباسعادت صادقین علیہما السلام کےموقع پر


    اکثر محدثین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے چالیس سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مورخین نے آپ کا روز ولادت ۱۲ ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔

    پیغمبر اکرم ﷺ کا بچپن

    رسولِ خدا نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی زیر سرپرستی ہوئی۔

    حضرت عبدالمطلب نے پیدائش کے ساتویں دن بھیڑ ذبح کرکے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور نام محمد رکھا، اس نومولود بچے کے لیے دایہ کی تلاش ہوئی اور چند روز کے لیے انہوں نے بچے کو ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طائفہ بنی سعد کے معزز فرد ابوذویب کی مہربان و پاکدامن دختر حضرت حلیمہ نے آنحضرت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور صحرا کی جانب لے گئیں تاکہ فطرت کی آغوش اور صحتمندانہ آزاد فضا میں ان بیماروں سے دور جو کبھی شہر مکہ کے لیے خطرہ پیدا کر دیتی تھیں۔ ان کی پرورش کرسکیں۔ قبیلہ بن سعد کے درمیان رسولِ خدا کی موجودگی حضرت حلیمہ اس نونہال کو ان کی والدہ کی خدمت میں لے گئیں تو انہوں نے آنحضرت کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ نے بھی ان سے اتفاق کیا۔

    پیغمبر اکرم پانچ سال تک صحراء کے دامن میں طائفہ بنی سعد کے درمیان زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو واپس والدہ اور دادا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ کے مزار کی زیارت سے مشرف ہونے اور دونوں اناؤں سے ملاقات کرنے کی غرض سے یثرب گئیں۔ جہاں کا ایک ماہ تک قیام رہا وہ جب واپس مکہ تشریف لا رہی تھیں تو راستہ میں (ابواء) نامی مقام پر شدید بیمار ہو گئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حادثے سے آنحضرت بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کے مصائب میں دو گنا اضافہ ہو گیا، لیکن اس واقعے نے ہی آپ کو دادا سے بہت نزدیک کر دیا۔

    قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکالیف کے زمانے کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا:" أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى "کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا۔

    ابھی آپ نے زندگی کی آٹھ بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب کے زیر سرپرستی آ گئے۔

    حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم ﷺ  بہت زیادہ عزیز تھے، وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد) کے آنے کا انتظار کرو۔

    رسول خدا حضرت فامہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ہیں:" حقیقی معنوں میں وہی میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا دیتیں کہ شکم سیر ہو کر کھاتا ان کے بچے میلے ہی رہتے مگر مجھے نہلا دھلا کر ہمیشہ صاف ستھرا رکھتیں"۔

    خدائی تربیت

    امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:"لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار"

    جس دن رسول خدا کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔

    شام کی طرف پہلا سفر

    رسول خدا نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رہنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ہوا۔ یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ہوئی، چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے ہی حضرت محمد کا گوہر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ہوا، اور یہیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کہنا شروع کیا۔

    بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:

    ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہو سکے واپس مکہ لے جایئے۔

    حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آ گئے اور پوری طرح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔

    ملک شام کا دوسرا سفر

    رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔

    حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا ﷺکے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔

    رسول خدا نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔

    کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم  کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا، اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔

    معبود حقیقی سے انس و محبت

    امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔

    امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:"ولقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولایراہ غیر"رسول خدا ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔

    پیغمبر اکرم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔

    اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

    شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کے والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔

    رسول اکرم کا ارشاد ہے: "لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام التطھیرات" میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ہوتا رہا۔

    حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام 
    آپ کی ولادت باسعادت آپ بتاریخ ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ ھ مطابق ۲۰۷ ءپیرکے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔

    آپ کی ولادت کی تاریخ کوخداوندعالم نے بڑی عزت دے رکھی ہے احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کوروزہ رکھناایک سال کے روزہ کے برابرہے ولادت کے بعدایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ میرایہ فرزندان چندمخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدانے بندوں پراحسان فرمایاہے اوریہی میرے بعد میراجانشین ہوگا ۔
    علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تھے تب کلام فرمایاکرتے تھے ولادت کے بعدآپ نے کلمہ شہادتین زبان پرجاری فرمایا۔
    اسم گرامی ،کنیت ،القاب آپ کااسم گرامی جعفر، آپ کی کنیت ابوعبداللہ ،ابواسماعیل اورآپ کے القاب صادق،صابروفاضل، طاہروغیرہ ہیں علامہ مجلسی رقمطرازہیں کہ آنحضرت نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفربن محمدکولقب صادق سے موسوم وملقب فرمایاتھا اوراس کی وجہ بظاہریہ تھی کہ اہل آسمان کے نزدیک آپ کالقب پہلے ہی سے صادق تھا  ۔
    علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ صدق مقال کی وجہ سے آپ کے نام نامی کاجزو”صادق“ قرارپایاہے ۔
    جعفرکے متعلق علماء کابیان ہے کہ جنت میں جعفرنامی ایک شیرین نہرہے اسی کی مناسبت سے آپ کایہ لقب رکھاگیاہے چونکہ آپ کافیض عام نہرجاری کی طرح تھا اسی لیے اس لقب سے ملقب ہوئے۔
    صادق آل محمدکے علمی فیوض وبرکات

    حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام جنہیں راسخین فی العلم میں ہونے کاشرف حاصل ہے اورجوعلم اولین وآخرین سے آگاہ اوردنیاکی تمام زبانوں سے واقف ہیں جیساکہ مورخین نے لکھاہے ۔

     آپ کے متعلق امام مالک بن انس لکھتے ہیں میری آنکھوں نے علم وفضل وروع وتقوی میں امام جعفرصادق سے بہتردیکھاہی نہیں ۔

    یوں توہمارے تمام ائمہ اہلبیت علمی فیوض وبرکات سے بھرپورتھے اورعلم اولین وآخرین کے مالک،لیکن دنیاوالوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں قیدوبندمیں رکھ کرعلوم وفنون کے خزانے پرہتھکڑیوں اوربیڑیوں کے ناگ بٹھادئیے تھے اس لئے ان حضرات کے علمی کمالات کماحقہ، منظرعام پرنہ آسکے ورنہ آج دنیاکسی علم میں خاندان رسالت مآب کے علاوہ کسی کی محتاج نہ ہوتی۔

     امام جعفرصادق علیہ السلام المتوفی ۱۴۸ ھ کاعہدمعارف پروری کے لحاظ سے ایک زرین عہدتھا،وہ رکاوٹیں جوآپ سے قبل ائمہ اہل بیت کے لیے پیش آیاکرتی تھیں ان میں کسی حدتک کمی تھی ،اموی حکومت کی تباہی اورعباسی سلطنت کااستحکام آپ کے لیے سکون وامن کاسبب بنااس لیے حضرت کومذہب اہلیبت کی اشاعت اورعلوم وفنون کی ترویج کاایک بہترین موقع ملالوگوں کوبھی ان عالمان ربانی کی طرف رجوع کرنے میں اب کوئی خاص زحمت نہ تھی جس کی وجہ سے آپ کی خدمت میں علاوہ حجازکے دوردرازمقامات مثل عراق ،شام،خراسان، اوردنیا کے مختلف جگہوں سے طلباء وشائقین علم حاضرہوکر مستفیدہوتے تھے حضرت کے حلقہ درس میں چارہزاراصحاب تھے۔

    کتب اصول اربعمایة حضرت کے اصحاب میں چارسوایسے مصنفین تھے جنہوں نے علاوہ دیگرعلوم وفنون کے کلام مصوم کوضبط کرکے چارسوکتب اصول مدون کیں اصل سے مرادمجموعہ احادیث اہلبیت کی وہ کتابیں ہیں جن میں جامع نے خودبراہ راست معصوم سے روایت کرکے احادیث کوضبط تحریرکیاہے یاایسے راوی سے سناہے جوخودمعصوم سے روایت کرتاہے اس قسم کی کتاب میں جامع کی دوسری کتاب یارویت سے معنعنا (عن فلاں عن فلاں) کے ساتھ نہیں نقل کرتا جس کی سند میں اوروسائط کی ضرورت ہواس لیے کتب اصول میں خطاوغلط سہوونسیان کااحتمال بہ نسبت اوردوسری کتابوں کے بہت کم ہے کتب اصول کے زمانہ تالیف کاانحصارعہد امیرالمومنین سے لے کرامام حسن عسکری کے زمانہ تک ہے حس میں اصحاب معصومین نے بالمشاذمعصوم سے روایت کرکے احادیث کوجمع کیاہے یاکسی ایسے ثقہ راوی سے حدیث معصوم کواخذکیاہے جوبراہ راست معصوم سے روایت کرتا ہے شیخ ابوالقاسم جعفربن سعیدالمعروف بالمحقق الحلی اپنی کتاب المعبر میں فرماتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے جوابات مسائل کوچارسومصنفین اصحاب امام نے تحریرکرکے چارسوتصانیف مکمل کی ہیں۔
    صادق آل محمدکے اصحاب کی تعداداوران کی تصانیف آگے چل کر فاضل معاصرالجوادمیں بحوالہ کتاب وکتب خانہ لکھتے ہیں کتب رجال میں جن اصحاب آئمہ کے حالات وتراجم مذکورہیں ،ان کی مجموعی تعدادچار ہزارپانچ سواصحاب ہیں جن میں سے صرف چارہزاراصحاب حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے ہیں سب کاتذکرہ ابوالعباس احمدبن محمدبن سعیدبن عقدہ نے اپنی کتاب رجال میں کیاہے اورشیخ الطائفہ ابوجعفرالطوسی نے بھی ان سب کااحصاء اپن ی کتاب رجال میں کیاہے ۔
    معصومین علیہم السلام کے تمام اصحاب میں سے مصنفین کی جملہ تعداد ایک ہزارتین سوسے زائدنہیں ہے جنہوں نے سینکڑوں کی تعدادمیں کتب اصول اورہزاروں کی تعدادمیں دوسری کتابیں تالیف اورتصنیف کی ہیں جن میں سے بعض مصنفین اصحاب ائمہ توایسے تھے جنہوں نے تنہا سینکڑوں کتابیں لکھیں ۔
    فضل بن شاذان نے ایک سواسی کتابیں تالیف کی ہیں،ابن دول نے سوکتابیں لکھیں ہیں اسی طرح برقی نے بھی تقریبا سوکتابیں لکھیں ،ابن عمیرنے نوے کتابیں لکھیں اوراکثراصحاب آئمہ ایسے تھے جنہوں نے تیس یاچالیس سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں غرضیکہ ایک ہزارتین سومصنفین اصحاب ائمہ نے تقریبا پانچ ہزارتصانیف کیں،مجمع البحرین میں لفظ جبرکے ماتحت ہے کہ صرف ایک جابرالجعفی،امام جعفرصادق علیہ السلام کے سترہزاراحادیث کے حافظ تھے۔
    تاریخ اسلام جلد ۵ ص ۳ میں ہے کہ ابان بن تغلب بن رباح (ابوسعید) کوفی صرف امام جعفرصادق علیہ السلام کی تیس ہزاراحادیث کے حافظ تھے ان کی تصانیف میں تفسیرغریب القرآن کتاب المفرد، کتاب الفضائل، کتاب الصفین قابل ذکرہیں، یہ قاری فقیہ لغوی محدث تھے، انہیں حضرت امام زین العابدین اورحضرت امام محمدباقر،حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے صحابی ہونے کاشرف حاصل تھا ۱۴۱ ھ میں انتقال کیا۔
    حضرت امام صادق علیہ السلام کی انجام بینی اوردوراندیشی

    مورخین لکھتے ہیں کہ جب بنی عباس اس بات پرآمادہ ہوگئے کہ بنی امیہ کوختم کردیں ،توانہوں نے یہ خیال کیاکہ آل رسول کی دعوت کاحوالہ دئیے بغیرکام چلنا مشکل ہے لہذاوہ امدادوانتقام آل محمدکی طرف دعوت دینے لگے اوریہی تحریک کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے جس سے عام طورپرآل محمدیعنی بنی فاطمہ کی اعانت سمجھی جاتی تھی ،اسی وجہ سے شیعیان بنی فاطمہ کوبھی ان سے ہمدردی پیداہوگئی تھی اوروہ ان کے معاون ہوگئے تھے اوراسی سلسلہ میں ابوسلمہ جعفربن سلیمان کوفی آل محمد کی طرف سے وزیرتجویزکئے تھے یعنی یہ گماشتہ کے طورپرتبلیغ کرتے تھے انہیں امام وقت کی طرف سے کوئی اجازت حاصل نہ تھی،یہ بنی کے مقابلہ میں بڑی کامیابی سے کام کررہے تھے جب حالات زیادہ سازگارنظرآئے توانہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام اورابومحمدعبداللہ بن حسن کوالگ الگ ایک ایک خط لکھاکہ آپ یہاں آجائیں تاکہ آپ کی بیعت کی جائے۔

    قاصداپنے اپنے خطوط لے کرمنزل تک پہنچے، مدینہ میں جس وقت قاصدپہنچا وہ رات کاوقت تھا،قاصدنے عرض کی مولامیں،ابوسلمہ کاخط لایاہوں حضوراسے ملاحظہ فرماکرجواب عنایت فرمائیں۔

    یہ سن کرحضرت نے چراغ طلب کیااورخط لے کراسی وقت پڑھے بغیرنذرآتش کردیااورقاصدسے فرمایاکہ ابوسلمہ سے کہناکہ تمہارے خط کایہی جواب تھا۔

    ابھی وہ قاصدمدینہ پہنچابھی نہ تھا کہ ۳/ ربیع الاول ۱۲۳ ھ کوجمعہ کے دن حکومت کافیصلہ ہوگیااورسفاح عباسی خلیفہ بنایاجاچکاتھا۔