b 21رمضان المبارک (1440ھ)شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کےموقع پر
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/11/12 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    21رمضان المبارک (1440ھ)شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کےموقع پر

    شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام 

    عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی مفتخر ترین ہستیوں میں مرسل اعظم ، نبی رحمت حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ  کے بعد سب سے پہلا نام امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام   کا آتا ہے، لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ عمدا یا سہوا افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے ہیں اور شاید اسی لیے ایک دنیا دوستی اور دشمنیوں کی بنیاد پر مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو گئی ہے، خود امیر المومنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ 127 میں ایک جگہ خبردار کیا ہے کہ :  

    "جلد ہی میرے سلسلے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لے کر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنا لیں گے۔ میرے سلسلے میں بہترین افراد وہ ہیں جو میانہ رو ہیں اور راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے

    وہ سچے مسلمان جو اہلبیت رسول ﷺسے محبت کرتے ہیں اور ان کو اپنے لئے "اسوہ" اور "نمونۂ عمل" سمجھتے ہیں، صرف اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ وہ ہمارے نبی ﷺکی اولاد ہیں اور ان کی نسل اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ اس لئے محبت و اطاعت کرتے ہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں عزیز و محترم ہیں اور ان کو اللہ نے اپنا نمائندہ اور عالم بشریت کا امام و پیشوا قرار دیا ہے۔ البتہ جن کو اہلبیت علیہ السلام کی صحیح معرفت نہیں ہے وہ ان کو یا تو اولاد رسول ﷺسمجھ کر مانتے اور احترام کرتے ہیں یا پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو ایک اچھا انسان سمجھ کر ان کی تعریف و ستائش کرتے اور عقیدت و ارادت کا اظہار کرتے ہيں۔ لیکن مسلمانوں کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ خدا نے ان کو امام و رہنما بنایا ہے اور اسوہ و نمونہ قرار دے کر ان کی اطاعت و پیروی واجب قرار دی ہے۔

     ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنا اور ان کے آئینۂ کردار میں خود کو ڈھالنا ہمارا فریضہ ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی محبت اور معرفت میں اس پہلو کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔ مسلمانوں کو دراصل اپنی رفتار و گفتار کے ذریعہ ثابت کرنا چاہئے کہ جب ہم "علی ع کی پیروی " کی بات کرتے ہيں تو یہ اوروں کی پیروی سے الگ، خدا و رسول ﷺکی پیروی کے مترادف ہے۔ ایک مسلمان حضرت علی علیہ السلام سے محبت و اطاعت عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے۔ جس طرح قرآن کی تلاوت رسول اسلام ﷺکی پیروی، نماز و روزہ کی ادائیگی، حج کے اعمال اور راہ خدا میں جہاد و سرفروشی عبادت ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت اور پیروی بھی عبادت ہے۔ ظاہر ہے محبت و اطاعت اسی وقت کارساز ہے جب ان کی امامت و رہبری کی معرفت کے ساتھ ہو۔

     ورنہ محبت کی ایک وہ صورت بھی ہے جو درویشوں اور فقیروں کے یہاں پائی جاتی ہے وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنا قطب اور پیشوا مانتے ہیں، مگر حضرت علی علیہ السلام کی عملی زندگی سے خود کو دور کئے ہوئے ہیں۔ عیسائي دانشور جارج جرداق ادعا کرتے ہیں کہ "میں خداؤں کی پرستش کرتا ہوں، میرے لئے علی ابن ابی طالب کمال اور عدالت و شجاعت کے پروردگار ہیں۔"  ظاہر ہے اس عیسائي دانشور کی محبت اور اس کا اظہار الگ عنوان رکھتا ہے، وہ عیسائي تھے اور عیسائي رہے ہیں، انہوں نے"انسانی عدل و انصاف کی آواز" کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام کی مدح و ستائش میں ایک پوری کتاب کئی جلدوں میں لکھ دی، مگر ان کی محبت اسلام کی نظر میں کسی دینی معیار پر پوری نہیں اترتی۔

    اسلام میں وہی محبت کارساز ہے، جو معرفت کے ساتھ ہو، ورنہ محبت میں ہی سہی، اگر کوئی حضرت علی علیہ السلام کو الوہیت یا نبوت و رسالت کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ غلو اور شرک ہے۔ جس کی طرف حدیث میں آیا ہے: "ہلک فیہ رجلان مبغض قال و محب غال"  "مبغض قال" سے مراد وہ کینہ توز دشمن ہیں جو جان بوجھ کر علی علیہ السلام کے فضائل چھپاتے یا انکار کرتے ہیں، اور " محب غال " سے مراد محبت کے وہ جھوٹے دعویدار ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کو خدا کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

     ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خدا کی بندگی رسول اسلام ﷺکی جانشینی اور مسلمانوں کی امامت و پیشوائی کے لحاظ سے بہتریں مسلمان اور کامل ترین انسان نظر آتے ہیں۔ اسی لئے ان کی شخصیت اور کردار ابدی اور جاوداں ہے۔

    19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیر المومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام ﷺ  کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی :

    "ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے۔

    اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام و پیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے، خداوند کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کا اشتیاق دل میں لیے آواز دے رہا تھا:

    "فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ" رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔

    اور علی علیہ السلام آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ، ان کا کردار ، ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کا ایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، اسی لیے علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی شہادت تاریخ بشریت کے لیے ایک عظیم خسارہ اور ایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔

    نبی اکرم ﷺکی رحلت کے بعد ملت اسلامیہ کا وہ کارواں جو 25 سال پیچھے دھکیل دیا گيا تھا، جب حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت پر متفق ہوا اور حکومت و اقتدار امیر المومنین کے حوالے کر دیا گیا تو 18 ذی الحجّہ سن 35 ہجری سے 21 ماہ رمضان المبارک سن 40 ہجری تک چار سال دس مہینہ کی مختصر مدت میں علی ابن ابی طالب نے وہ عظیم کارنامے قلب تاریخ پر ثبت کر دئیے کہ اگر ظلم و خیانت کی شمشیر نہ چلتی اور جرم و سازش کا وہ گھنونا کھیل نہ کھیلا جاتا جو عبد الرحمن ابن ملجم اور اموی خاندان کے جاہ طلبوں نے مل کر کھیلا تھا، تو شاید دنیائے اسلام کی تقدیر ہی بدل جاتی پھر بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام نبی اکرم ﷺکی 23 سالہ زندگی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے وہ زریں نقوش تفسیر و تشریح کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کے لیے اسلام کی حیات کا بیمہ ہو چکا ہے اور قیامت تک روئے زمین پر قائم ہونے والی ہر حکومت اس کی روشنی میں عالم بشریت کی ہر ضرورت کی تکمیل کر سکتی ہے۔

    چونکہ 21 رمضان المبارک کو علوی زندگی کا وہ صاف و شفاف چشمہ جو دنیائے اسلام کو ہمیشہ سیر و سیراب کر سکتا تھا، ہم سے چھین لیا گيا لہذا یہ مصیبت ایک دائمی مصیبت ہے اور آج بھی ایک دنیا علی علیہ السلام کے غم میں سوگوار اور ماتم کناں ہے۔