سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سرالوجود

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سرالوجود<?xml:namespace prefix = "o" ns = "urn:schemas-microsoft-com:office:office" />

 

آیۃ اللہ استادسیدعادل علوی دام عزہ حوزہ علمیہ قم ایران

ترجمہ: حجۃ السلام والمسلمین مولاناعابس حسن خان حوزہ علمیہ نجف اشرف

روایات کی روشنی میں حضرت فاطمۃ الزہرا "سرالوجود" وجود کا راز ہیں یعنی آپ کی عظمت ورفعت راز الٰہی ہے،اور اس کیلئے سرالسر کی سندبھی موجود ہے یعنی آپ راز ہیں ،اس لئے کہ امام  زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف محور کائنات اورقطب ارض ہیں اگر امام کا وجود مبارک نہ ہو تو زمین تمام موجودات  کے ساتھ نابود ہوجائے تمام برکتیں منعدم ہوجائیں زمین وآسمان کی بقا اورتمام خلائق کیلئے سبب رزق امام زمانہ ہیں۔ گوکہ حضرت کا وجود مبارک سرالموجودات یعنی تمام موجودات کاراز ہے۔ جب کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاوجود حقیقی وجودتام ہے اورامام علیہ السلام کاوجود خداوندعالم کی طرف سے اس کائنات ہستی میں رازالٰہی ہے۔

لہذا امام علیہ السلام پوری کائنات میں منزلت اورمعرفت کے عنوان سے راز الہی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے حجت بھی ہیں۔

لیکن مادر ائمہ علیہم السلام حضرت صدیقۃ الکبریٰ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہاکی منزلت اورمعرفت امام حسن  عسکری علیہ السلام  کے قول مبارک سے واضح ہوجاتی ہے اوربی بی سلام اللہ علیہاسے عقیدت اورمعرفت کاایک نیادر کھل جاتاہے۔"نحن حجج اللہ وامنافاطمۃ حجۃ اللہ   "ہم ائمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے حجت ہیں اورہماری ماں فاطمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہم ائمہ پر حجت ہیں۔

اس قول بلیغ سے حضرت صدیقہ سلام اللہ علیہاکی معرفت اوررفعت وبلندی کاانداز ہوتاہے آپ "سرالسر للوجودات"تمام موجودات کے لئے راز ایک راز ہیں اورحدیث قدسی کے اس فقرہ کے ذریعہ آپ کی معنوی بلندی کی طرف اشارہ بھی ہواہے ۔"ولولا فاطمۃ لماخلقتکما" اگرفاطمہ کی تخلیق کا مقصد نہ ہوتاتوآپ دونوں (پیغمبرؐاسلام وامیرالمومنینؑ)کوبھی خلق نہ کرتا۔

لہذاانسان کا فریضہ اوراس کی ذمہ داری جناب زہراسلام اللہ علیہا کے اس عظیم معرفت کوحاصل کرنے کے بعد بڑھ جاتی ہے اوریہ معرفت وظیفہ شرعی ،حسن واخلاق ،دینداری،امتثال وپیروی اورقلبی عقیدے کی طرف دعوت دیتی ہے۔

جناب سیدہ کے متعلق جو اعتقاداورعرفان ہے وہی ہمارے عقیدے اورعمل کیلئے مناط ومعیار ہوناچاہیے۔ اس لئے کہ خداوندمتعال نے اصول دین اورفروع دین میں اعتقاد اورعمل کوایک ساتھ عائد کیاہے۔ لہذافروع دین میں اعتقاداورعمل کوایک ساتھ عائد کیاہے۔ لہذافروع دین کے اعتبارسے دس چیزیں نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃ ،خمس، جہاد، امربالمعروف ،نہی عن المنکر،تولیٰ اورتبرا واجب قراردیاہے۔جب ان تمام فرائض پر عمل کیلئے آگئے بڑھتے ہیں تودونہج سامنے آتے ہیں ۔

(1) عمل جوارحی: یعنی وہ امور جو انسانی اعضاء وجوارح کی مدد سے انجام پاتے ہیں۔

(2)عمل جوانحی: جن امورکاتعلق باطن اورمعنویات سے ہوتاہے جوانسان کی نیت اوراس کے ارادہ پرموقوف ہوتے ہیں " نیۃ المومن خیرمن عملہ" مومن کی نیت اس کے عمل سے بہترہے یعنی وہ امورجوانسان کے قلب سے متعلق ہیں جن کو مومن کا قلب بطریق احسن قبول کرتاہے، لہذااللہ ،رسول اوراولیاء خداکی محبت عمل جوانحی سے متعلق ہے۔ یعنی مومن کارشتہ ان تمام مصادیق محبت سے ایک باطنی اورمعنوی لگاؤ  ہے اور قلبی تعلق ہے ہمارے عقیدے کیلئے لیکن یہ محبت والفت  کا ایک  رخ ہے دوسرا رخ بھی عمل جوانحی سے متعلق ہے۔ یعنی الفت اورمحبت کارشتہ اورتعلق جواللہ ،رسول اورخاصا ن خدا کیلئےہوتاہے اس کوتولیٰ کہاجاتاہے۔

ان تمام ہستیوں کے دشمنوں سے نفرت کوتبرا کہاجاتاہے۔لہذا ہمارے عقیدے کے سکہ کے دو   رخ ہوئے ایک تولیٰ  اوردوسرا رخ تبرا۔

تولیٰ: لغت میں اتباع بدون فاصلہ کو کہا جاتاہے یعنی مولی اورمتولی کے درمیان فاصلہ نہ ہو ایک کا دوسرے کے پیچھے بغیر فاصلہ   کے چلنا۔

اصطلاح میں: انسان کا ولی مطلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے اورانسان اپنے رب کا تابع ہے اوریہ اتباع اس طرح ہے کہ خداوندمتعال اپنے بندے سے اس کی شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔

" وھومعکم این ماکنتم"(سورہ حدید4) وہ تمہارے ساتھ ہے تم  جہاں بھی رہو۔ھوولیھم(سورہ انعام 122) وہ ان کاسرپرست ہے۔"اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمات الی النور"(سورہ بقرہ 257)ان آیات میں مومن اوراس کے رب کے درمیان جو رشتہ اورتعلق ہے اس کی طرف صریحی طور پراشارہ کیاگیاہے پس مومن اپنے رب سے قریب ہے اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے  سے قریب تر ہے۔

لہذا پہلی ولایت خداوندعالم کیلئے ہے اوراس کے رسول اوراس کے اولیاء کیلئے ہے اوریہی ولاء انسان کو اللہ رسول اوراولیاء خدا سے رشتہ ِ محبت کو استوارکرتی ہے اورمحبت ، اطاعت کے فریضہ کی طرف  متوجہ کرتی ہے۔

"اطيعواالله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منكم "(انبیاء 59) اس آیت کریمہ میں جن مصادیق کیلئے ولایت کااعلان ہورہاہے بعینہ خداوندمتعال دوسری آیت میں ولایت اوراطاعت کو انہیں مصادیق کیلئے منحضر قراردے رہاہے۔

"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ " تمہارا ولی صرف اللہ ہے اس کارسول اوروہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

لہذا یہ بات واضح ہے کہ ولایت کالازمہ محبت ہے اورمحبت کالازمہ اطاعت ہے،ان سب کا تعلق انسان کے قلب سے ہے جن کا اظہار  اعضاء وجوارح کے ذریعہ شان بندگی ہے۔"فمن کان محبالامیر المومنین سیکون مطیعالہ"جو امیرالمومنین کاچاہنے والا وہ ان کامطیع اورفرماں برداربھی ہوگا۔ صادق ؑ آل محمد فرماتے ہیں:

" عجبنا لمن یدعیٰ حب اللہ کیف یعصی اللہ"مجھے تعجب ہے اس کیلئے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت کادعویٰ تو کرتاہے پھرکس طرح گناہ کرتاہے؟

لہذا محبت کا تعلق انسان کے قلب سے ہے اور انسان  اس کے بدن کا سلطان ہے جسم انسانی پر اس کے دل کی حکومت ہوتی ہے جسم کی صحت اوردرستگی اس کے دل کی صحت اوردرستگی پر موقوف ہے دل کی اصلاح جسم کی اصلاح ہے اوردل کا فساد جسم پر مرتب ہوتاہے ۔بس جب دل میں اللہ رسول اوراولیاء الٰہی کی محبت ہے توان کی اطاعت بھی ضروری ہے اس لئے کہ بدن قلب کاتابع ہوتاہے۔

دوسرا رخ تبرا۔ یہ راستہ بھی انسان کواللہ کی بارگاہ میں لے جاتاہے اوراس کاتعلق بھی عمل جوانحی سے ہے لہذا یہ بات طے ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں جانے کیلئے دوراستے ہیں (1)تولا (2)تبرا

تبرا: یعنی  بیزاری اختیار کرنا نفرت وعداوت کانام تبراہے یعنی جب ولایت کے عنوان سے اللہ اس کے رسول اور اولیاء سے دعویٰ محبت کرتے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے اللہ کے دشمن اس کے رسول اوراولیاء کے دشمن سے براءت اختیار کریں اورعدوئے  حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ  علیہاسے اظہارنفرت کریں۔

جب یہ بات معلوم ہوچکی کہ جناب سیدہ کی معرفت ضروری ہے اوروہ راز الٰہی ہیں تو یہ بھی ضروری ہےکہ ان کے دشمن سے سے اظہاربیزاری کی جائے۔

امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں۔" کذب من زعم انہ یحبنی ویحب عدوی"جھوٹا ہے وہ جو یہ گمان کرتاہے کہ مجھ سے محبت کرتاہے اورمیرے دشمن سے بھی محبت کرتاہے۔

حضرت کا فرمان مبارک قرآن مجید کی آیت کریمہ کا آئینہ دارہے"ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ" اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو  دل قرارنہیں دئے۔تعجب ہے اس شخص پرجو محبت امیرالمومنین ؑ کے ساتھ ساتھ محبت عدوئے امیرالمومنین ؑکابھی دم بھرتاہے۔

یہ کیسے ممکن ایک ہی دل میں دو متضاد محبتیں جمع ہوجائے نہ عقلاء اس کوقبول کرتے ہیں اورنہ ہی اہل منطق تسلیم کرتے ہیں۔ طہارت اورخباثت ایک ہی مقام پر جمع نہیں ہوسکے یہ عقلاً محال ہے۔

یہ کیسے ممکن کہ شیطان اورشیطان پرستوں سے مصالحت اورمحبت کااعلان ہو اورالوہیت وربوریت سے الفت کادعویٰ بھی ہو ۔ شیطان عدو خداہے دشمن مشیت پروردگارہے متکبر اورمنکرامر الٰہی  ہے اورلوگوں میں جو شیطان پرست بلکہ شیاطین انس تھے ان سے بھی محبت کادعویٰ ۔۔۔ کیسے ۔۔۔ ایسے نظریات سادہ لوح افراد کے عقائد کوتباہ کرتے ہیں اوروہ حقیقت سے روشناس نہیں ہوپاتے اوریہ قول امیرالمومنین ؑ کے خلاف ہے۔

امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں ۔دوست تین طرح کے ہوتے ہیں : صدیقی۔ صدیق صدیقی وعدو عدوی۔میرا دوست میرے دوست کا دوست اورمیرے دشمن کادشمن۔

اس طرح دشمن بھی تین طرح کے ہوتے ہیں: عدوی۔ عدو صدیقی وصدیق عدوی۔نہیج البلاغہ

حضرت کاقول قول وجدانی وامر حتمی ہے اورفطرۃ پر منحصرہے امیرالمومنین ؑ کایہ قول قول حق ہے۔

اس حد یث مبارک سے واضح  ہے کہ تین گروہ کی نجات   متوقع ہے۔

(1) امیرالمومنین ؑ کا دوست: جس کو خود امیرالمومنین ؑ نے صدیق کے ذریعہ تعبیر کیاہے جیسے سلمان فارسی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ جن کیلئے سندبھی ہے "سلمان منااھل البیت" پس امیرالمومنینؑ  کا دوست وہ ہوگاجو امیرالمومنین ؑ کے قدم بہ قدم  چلا ہواوران کے نقش قدم کو زندگی کی دوڑ میں کبھی فراموش نہ کرتاہو۔ اس بات پر جناب سلمان فارسی کی روشن حیات اورطریقہ زندگی شاہدہے کہ جب تمام صحابہ کرام نے بارہا کوشش کی کہ سلمان سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائیں لیکن وہ ایساکرنے سے عاجز رہے۔ہمیشہ جناب سلمان فارسی مسجد میں تمام صحابہ سے پہلے داخل ہوتے تھے اس سبقت  کاراز کیاتھا اس کو جاننے کیلئے تمام صحابہ نے جناب سلیمان فارسی کاتعقب کیا اورمسجد کی جانب روانہ ہوئے۔لیکن راستہ میں کوئی نظر نہیں آیا جب یہ لوگ مسجد میں وارد ہوئے توکیادیکھا کہ جناب سلمان  امیرالمومنین ؑ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ متعجب اورمتحیر آمیز لہجہ میں پوچھا کہ اے سلمان کیا تم آسمان سے اترے ہویازمین سے سے باہر آگئے ہو؟ جناب سلمان نے کہاکہ نہیں میں توامیرالمومنین ؑ کے پیچھے آرہاہو جس راستے سے امیرالمومنین ؑ آئے ہیں اس راستے سے میں بھی آرہاہوں ۔۔۔۔ کیوں؟ "  کنت اضع قدمی علیٰ موضع قدم  امیرالمومنینؑ لانی اعلم انہ لایرفع قدما ولایضعھاالابحکمۃ وعلم" میں اپناقدم امیرالمومنین ؑ کے قدم مبارک پررکھتاتھا اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ امیرالمومنین کا قدم بغیر علم وحکمت کے نہ تواٹھتاہے اورنہ ہی رکھتاہے اس طرح کی معیت رقابت اوراطاعت " سلمان منااھل البیت"کی سندسے مستند ہوئی ہے۔

دوسراگروہ:صدیق صیدیقی:اب جو اہل بیت کے دوست کا دوست ہو یعنی سلمان کا دوست ہو ان کے نعل بہ نعل قدم بہ قدم چلے مخلص شیعوں میں سے ہو جب کہ روایت کے پس منظر میں شیعہ اورصفات شیعہ جو وارد ہوئے ہیں ان میں سے ایک بھی صفت ہم نہیں پائی جاتی ہے جو ہم کو مخلصین کے شمار میں داخل ہونے سے روکتی ہیں معصومینؑ کی پا ک نظروں میں شیعہ وہ ہے جس کا شکم بھوک کی وجہ سے خالی ہو جس کی آنکھیں گریہ کی وجہ سے کمزورہوگئی ہوں جس کا چہرہ سحر خیزی کی وجہ سے زرد پڑگیاہومحبت اہل بیت ؑ انسان کو علم دوست بناتی ہے اوردنیاطلبی سے روک دیتی ہے صفات متقین میں امیرالمومنین علیہ السلام نے انہیں باتوں کی طرف اشارہ فرمایا۔

کہاں یہ صفات اورکہاہماراکردار۔ لہذا نہ تو ہم دوست ٹھہرے اورنہ دوست کے دوست۔ توکیاہم اپنی شفاعت اورنجات سے محروم ہیں۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ تیسرے گروہ (عدو عدوی)کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

مولانے فرمایا میرے دشمن کادشمن میرادوست ہے یہی راستہ ہمارے لئے نجات کا ضامن ہے اورمیدان محشر میں شرمندگی سےبچائےگا۔

اس لئے کہ ہم امیرالمومنین حضرت صدیقہ طاہرہ اوران کی اولاد علیہم السلام کے دشمن سے دشمنی کا اعلان کرتے ہیں۔

اورالحمدللہ اس پر طریق احسن قدرت بھی رکھتے ہیں ۔اورانشاءاللہ اسی کے ذریعہ ہم میدان محشر میں اہل بیت علیہم السلام سے دوستی کا اعلان بھی کریں گے اس لئے کہ ہم دنیا میں کثرت سے زیارت عاشوراکے ان فقروں کی تلاوت کرتے ہیں۔ "اللہم العن اول ظالم ظلم حق محمدوآل محمد وآخر تابع لہ علیٰ ذالک"خدایا لعنت  کراس پہلے ظالم پر جس نے محمدوآل محمدپر ظلم کیااورآخری اتباع کرنے والے پران فقروں کے ذریعے اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے برات اورعداوت کا برملااعلان کرتے ہیں اوراس برات کے ذریعہ متقرب بارگاہ الہی ہوں گے اوراسی رتبہ کے تحت کامیاب ہوں گے۔

اس لئے کہ جب ہمارے پاس اہل ولایت جیسی حقیقی محبت نہیں اوراہل عبادت جیسی واقعی اطاعت نہیں تواس ایک راستے پر چل کر اہم ولایت اوراہل اطاعت کی طرح کامیاب ہوجائیں گے۔

اوراس مسئلہ میں اس پراور بکے ہوئے قلم ،پیسوں پربولنے والی زبانوں اور جھوٹی شخصیات کی ملمع کاری، شیاطین انس کے بیان اوران کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے ایسے افراد از روز اول الاسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

اوریہ شیاطین انس امیرالمومنین ؑ حضرت فاطمۃ الزہراء اوران کی اولاد علیہم السلام کے دشمن ہیں ان کے فاسد ارادہ کمزور قلم دشمن اہل بیت کو خادم اسلام قرارنہیں دے سکتے۔

لہذا ان کی بیمار فکروں خونخوار نفوس اورپست عقلوں کا اتباع نہیں کریں گے اس لئے کہ یہ لوگ اہل بیتؑ کے علوم کی گیرائی اورگہرائی سے نابلد ہیں۔

لہذااہل بیتؑ رسول ﷺ پر درودکے ذریعہ شعارولایت اوران کے دشمنوں پرلعنت کے ذریعہ شعار برات کو باقی رکھنا چاہیے۔ اس لئے کہ درود شعار ولایت ہے زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں "وصلواتناعلیکم طھارۃ لانفسنا وکفارۃ لذنوبنا" ہمارے درود آپ پر ہمارے نفسوں کیلئے پاکیزگی اورہمارے گناہوں کیلئے کفارہ ہیں اورشعار ولایت کے ساتھ ساتھ شعار برات بھی ضروری ہے یعنی " لعن اعداء اھل البیت واعداء فاطمۃ الزھراء"۔ اس لئے کہ لعنت بھی ایک قسم کی دعاہے ۔"اللھم العن فلان"  یعنی پروردگار فلاں کو اپنی رحمت سے دور کردے۔ اسی لئے تمام زیارتوں میں ایک طرف اہل بیت علیہم السلام پر سلام ہے اوردوسری طرف ان کے دشمنوں پر لعنت بھی ہے۔

جب ہم اہل بیت خصوصاً جناب زہراء کی عظمت اوران کی مظلومیت پر گفتگوکرتے ہیں توان فقروں کے ذریعہ ایمان کو تازگی اورعقیدے کو جلاملتی ہے فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رضااللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا ہے ۔اورفاطمہ کا غضب اللہ کاغضب ہے ۔اسی مفہوم کو پیغمبراسلامﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی بیان کیاتھا۔ صحیح بخاری جزء الرابع باب مناقب فاطمہ (س) میں نقل ہے۔"ومن ارضی فاطمہ ارضانی ومن ارضانی فقط ارضی اللہ  ومن اغضب فاطمہ فقد اغضبنی ومن اغضبنی فقد اغضب اللہ" جس نے فاطمہ کو راضی کیااس نے مجھے راضی کیااورجس نے مجھے راضی کرلیابس اس نے اللہ کی رضا کو پالیااورجس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیااورجس نے مجھے غضبناک کیا گویااس نے خداوندمتعال کو غضبناک کیا۔

" وَالَّذينَ يُؤذونَ رَسولَ اللَّهِ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ- أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ "(سورہ ہود18)

إِنَ الَّذینَ یُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهینا"(سورہ احزاب57)


سوال بھیجیں