سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

شیطان کو کیوں خلق کیاگیا؟

شیطان کو کیوں خلق کیاگیا؟

بقلم : سیدعادل علوی(مدظلہ)

ترجمہ: ذاکرحسین ثاقب ڈوروی

تقریبا ً ایک مہینہ پہلے  دوستوں کے ساتھ  منعقدہ  پروگراموں   میں سے ایک پروگرام جس  کا عنوان  تھا"اپنے پہلے  دشمن کی پہچان"  جب گفتگو ختم ہوگئی اور اگلا سوال جو  ذہن میں آیا وہ یہ تھا:کہ  شیطان لعین  کو کیوں خلق کیاگیا؟

پس ہم نے جواب دیا:

   اول:  خلقت ِ شیطان  کی سب سے پہلی دلیل آزمائش اور امتحان کے خاطر  تاکہ اچھے ، برے، مومن  اور کافر  کی پہچان  ہوسکے ،اور اس موضوع کے متعلق ہم  نے اجمالا گفتگو کیا ۔

اس سوال  کے جواب میں    ہم نے چند اور وجوہات بیان  کیے وہ یہ ہیں:  

دوم: بتحقیق اللہ تعالیٰ   حکیم، علیم، لطیف ، اور خبیر ہے اللہ جس کام کا ارادہ  کرتا ہے اسے انجام دیتاہےاور کبھی قبیح  کام انجام نہیں دیتا خداہرعیب اورقبیح چیزوں سے پاک ومنزہ ہے۔"سُبْحانَ اللَّهِ عَمَّا یَصِفُونَ" خدابندوں سے پو چھے گا جبکہ خدا سے پوچھا نہیں جائےگا۔

جب شیطان ابلیس (لعنۃ اللہ )نے خداوند متعال سےیہی سوال پوچھا: کہ کیا  آپ جانتے تھے کہ میں گناہ کرنے والاہوں؟  خدا نے فرمایا ؛ ہاں  پس شیطان نے کہا پھر مجھے کیوں خلق کیا ؟ رب ذوالجلال کی طرف سے جواب آیا  میری(حکمت الہی) حکمت کا تقاضا یہی ہے ۔ پس شیطان خاموش ہوگیا چونکہ وہ جانتا تھا کہ بتحقیق اللہ تعالیٰ   حکیم  ہے۔

حکیم ہر چیز کو اپنی جگہ پر قرار دیتاہے  کبھی  بے ہودہ، قبیح ،لغو   کام  انجام نہیں دیتا اسی طرح سہو،نسیان اور خطا سےبھی  پاک ومنزہ ہے۔  بلکہ اللہ وہی کرے گا جس میں کامل حکمت پائی جاتی ہو پس شیطان کو حکمت الٰہی کے بغیرکسی اور وجہ سے خلق نہیں فرمایا اور ایسا خدا ہے جو بندوں سے پوچھ گچھ کرتا ہے  جبکہ اللہ کے کام میں اس کو مورد سوال قرار نہیں  دیا جاتا  جو سب پر غالب  ہے اسی کے لئے بزرگی اور کبریائی ہے اور صاحبِ جلال  ہےجس کام کا ارادہ  کرتا ہے  اسے انجام دیتاہے جبکہ انسان کے  پاس حکم خدا کے سامنے تسلیم ، اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر راضی ہونے  علاوہ  کچھ نہیں ہے ۔

سوم:  شیطان کی طاقت اوراختیار  انسان پر فی الجملہ ہے ۔   یعنی  اسکی قدرت اجمالی  ہے وہ کلی طور پر اختیار نہیں رکھتا  اسکا معنی یہ نہیں کہ انسان سے اس کا  اختیار سلب ہوا ہو  بلکہ شیطان کی قدرت صرف وسوسہ کے حد تک محدود ہے  وہ  برائی ،منکرات اور فحاشی کی تزیین کرتا ہے اسکو آراستہ  اور خوبصورت جلوہ دے کر وسوسہ  پیدا کرتاہے جیسا کہ  آیات اور روایات  میں اس کی طرف اشارہ ہواہے۔

چہارم:  شیطان کی  طاقت، قدرت  ، اختیار  اور اس کا مکر وفریب انسان کی نسبت  بہت کمزور اور ضعیف ہے   اورجومومن صرف اللہ ہی پر توکل کرتا ہے شیطان اس پر قدرت نہیں رکھتا ہے   پس تمام باایمان لوگ صرف اللہ ہی پر توکل کرنا چاہتے  ہیں۔ "إن كید الشیطان كان ضعیفاً" کیونکہ شیطان  کا مکر وفریب ضعیف  اورکمزور ہے ۔ 

پنجم: ابلیس اور انکے جنوں وانسانوں  کا لشکر  ، اللہ کے صالح ،  اہل ایمان  اور اپنے رب قدیر  پر توکل کرنے والےبندوں  پر  تسلط حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ بتحقیق شیطان اگرچہ جس کے بارے میں کہا گیا  "لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ" (میں ان سب کو گمراہ کردوں گا) جس کیلئے خداوند متعال جواب دیتے ہیں۔کہ "إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ "( لیکن یہ جان لے) تم ہرگز میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں کرسکے گا۔  

اور ارشاد خدا وندی ہو رہا ہے:کہ" إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ" کیونکہ جو اہل ایمان  اپنے رب پر توکل کرنے والےہیں ،ان پر اس (شیطان) کابس نہیں چلتا۔[1] اسی لئے شیطان نےکہامیں ان سب کوگمراہ کردوں گا  "إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِين"سوائے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے،ذرا غور کیجئے۔

ششم:  بتحقیق ابلیس لعین کا تسلط تو صرف ان لوگوں پر ہےجو ان کے وسواس سے غافل ہے اور وہ لوگ جنہوں  نے اپنے نفس کو فراموش کیا ہے ۔  پس انسان کو چاہیے خدا کی یاد میں رہے  اور خدا کے ذکر کو زیادہ سے زیادہ  بجا لائے تاکہ انسان اپنے نفس اور اپنے رب سے غافل نہ رہے۔

 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:کہ"وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ" اور جو شخص یاد رحمان سے روگردانی کرتا ہے تو ہم اس کیلئے ایک شیطان کو مقرر کردیتے ہیں جو ہردم اس کے ساتھ رہتاہے۔[2]

 اور ارشاد خدا وندی ہو رہا ہے:کہ"إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ"بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔[3]

ہفتم: بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ  نے اپنے بندوں کو متنبہ  اور خبردارکیاہےاور قرآن مجید میں مختلف مواقع   پر صراحت کیساتھ بیان کیاہے بتحقیق  شیطان  انسان کا پہلا دشمن ہے،  پس اس سے ہشیار اور بہت محتاط رہناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:" وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ."شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔[4]

لہذا  انسان  شیطان کی پیروی  کا خود ذمہ دار  ہےاور اس کو  چاہیے کہ وہ اپنے نفس  کے علاوہ کسی کی ملامت نہ کرے ۔ پس انتباہ الہی    جو انبیاء اور رسل اورکتب  آسمانی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے جبکہ انسان  اس کے متعلق علم بھی رکھتاہے  اور  انسان یہ بھی جانتا ہے کہ شیطان اس کا سخت  دشمن ہے وہ انسان کو گمراہ کرکے اپنے  ساتھ  جہنم میں داخل  کرناچاہتاہے اس کے باوجود انسان شیطان کی اطاعت اور پیروی سے باز نہیں آتا ۔  پس  غافل انسان وہ ہے  جس پر شیطان  اپنی پوری قدرت اور اختیار کے ساتھ تسلط حاصل کرسکتاہے۔

ہشتم: آخری صورت یہ ہے کہ " وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعى ، وَاَنَّ سَعْيَهُ  سَوْفَ يُرى"  اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔[5]

خدا وند عالم نے بندوں کو صاحب اختیار ذہن اور عقل سیلم سے آراستہ  کیا ہےاور انہیں  انبیاء ، رسل   آسمانی کتابیں اور آفاق میں بھی اور انفس میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں۔

ارشاد خدا وندی ہورہاہے۔ " سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ " ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے۔ [6]

  اگر  انسان گمراہی ، شقاوت  ،  شیطان کی اطاعت اور پیروی   سے اپنے آپ کو جہنم میں ڈال دیں تو اس انسان کو چاہیے اپنے نفس  کے علاوہ کسی کی ملامت نہ کرے ۔

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہورہاہے۔"وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلاَ تَلُومُونِي وَلُومُواْ أَنفُسَكُم"اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو۔[7]

پس ہم  شیطان کی دشمنی کےمتعلق علم رکھنے  کے باوجود اپنے نفس کی ملا  مت کیوں نہیں کرتے   اور اللہ کا  ہم سے وعدہ ہے  کہ ہم شیطان کی جانب  نہیں  پلٹے گے   اور  اس سے بیزاری کا اظہارکرتےہیں۔

 بےشک شیطان کا  ہم پر کوئی اختیار نہیں ہے   کیونکہ شیطان  کا مکر وفریب ضعیف  اورکمزور ہے    تو پھر ہم شیطان سے بھی  زیادہ کمزور کیوں ہیں؟  اور کم از کم ہمارا  ارادہ یہ ہو کہ ہمارے پاس ایک رب ہے جو ہماری حفاظت   اور ہماری دفاع کرے گا اگر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہوتاہے۔" إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا "  اللہ ایمان والوں کا یقیناً  دفاع کرتا ہے۔[8]

 ہم باطل کے محاذوں کے خلاف حق کے سامنے ہیں۔"إِن تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ وَالعاقِبَةُ لِلمُتَّقينَ" اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا  اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے۔[9]

شیطان   کی شر سے محفوظ رہنے کیلئے ہمیں چاہیے کہ اس ذکر عظیم کا ورد کریں:

  مفاتیح الجنان میں نماز صبح  کی تعقیبات  میں بیان ہواہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی معتبر روایات میں یہ وارد ہوا ہے کہ طلوع وغروب سے پہلے دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں:" أعُوذُ بِاللّهِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ یَحْضُرُونَ، إنَّ اللّهَ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ" میں شیاطین کے وسوسوں سے سننے ، جاننے والے خدا کی پناہ کا طلبگار ہوں اورخدا کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ وہ میرے قریب آئیں بے شک اﷲہی سننے اور جاننے والا ہے۔ [10]

اگر انسان اپنے دشمن  شیطان کی اطاعت  کرے  اور  اسے اختیار کی اجازت دیں  تو وہ  انسان پرتسلط حاصل کرتاہے اسوقت انسان   اپنے نفس  کے علاوہ کسی کی ملامت نہ کرے۔ لذا  خدا وند  متعال ارشاد فرماتاہے۔ کہ "لَمَّا قُضِيَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلاَ تَلُومُونِي وَلُومُواْ أَنفُسَكُم" امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو[11]

عزیزان محترم :

یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ ہم شیطان کی دشمنی  اور اس کے خطرات کے  متعلق جاننے  کے باوجود   اپنی برائی کا اعتراف اور  اپنے گناہ کارنفس  کی ملامت نہ کرے۔   بےشک اللہ تعالٰی کا ہم سے وعدہ ہے کہ شیطان کی پرستش نہیں کریں گے اور وہ  ہم پرایک لحظہ  (پلک جھپکنےکی مدت)بھی مسلط  نہیں ہوسکتا۔

خطبہ منیٰ  میں  آیا ہے ۔ کہ رسولﷺ    نے فرمایا: اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔[12]

امام   جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:  فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  حضرت موسی علیہ السلام ایک روز بیٹھے تھے کہ ابلیس ایک اونچی رنگ برنگ  کی ٹوپی پہنے ہوئے آیا (یہ خواہشات  دنیاوی   ،فحاشی کی تزیین    اور  لوگوں کو گمراہ کرنے کی طرف اشارہ  ہے) اور جناب موسیٰ ؑ کے قریب آکر ٹوپی اتار لی اور ان کو سلام کیا۔

جناب موسیٰ  نے پوچھا تو کون ہے  اس نے کہا  میں ابلیس ہوں، جناب موسیٰ نے  فرمایا  خدا تجھ سے دور رکھے ۔ کیوں آیا ہے؟  اس نے کہا  آپ  اللہ کی بارگاہ میں جو مقام ہے اس وجہ سے آپ کو سلام کرنے آیا ہوں۔

جناب موسیٰ ؑ نے کہا یہ ٹوپی کیاہے ؟ اس نے کہا  یہ ٹوپی وہ ہے جس کے ذریعے میں لوگوں کے دلوں میں گھس جاتا ہوں۔ اور وسوسے  ڈالتاہوں ۔ جناب موسیٰ نے کہا مجھے بتاؤ  وہ کونسا گناہ ہے؟  جسے آدمی کرتاہے تو اس پر غالب آجاتاہے اس نے کہا جب  اس کا نفس خود پسند ہوجاتاہے اور وہ زیادہ عمل کرکے گناہ کو حقیر سمجھنےلگتا ہے ۔

پھر اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے  کہا میں آپ کو  تین خصلتوں کے متعلق وصیت  کرتاہوں۔

  کسی  نامحرم عورت  کے ساتھ تنہائی نہ کرو اور وہ بھی آپ کے ساتھ خلوت نہ کرے  کیونکہ جب بھی ایک مرد اور ایک عورت تنہائی  میں اکٹھے ہوتے ہیں تو  میں وہاں پر ان کا ساتھی ہوتاہوں ۔ اپنے اصحاب کے بغیر (یعنی میں خود وہاں ہوتاہوں)۔

پھر اس سے کہ آپ کسی سے اللہ کا وعدہ کریں کیونکہ جب بھی کوئی اللہ کا وعدہ کسی سے کرتاہے (یعنی خدا کی خوشنودی کیلئے)پس اپنے ساتھیوں کے علاوہ خود میں اس کے وعدے اور وفا کے درمیان حائل ہوجاتاہوں۔

جب آپ صدقہ کا ارادہ کرلیں تو جلدی ادا کریں کیونکہ جب کوئی صدقے کا ارادہ کرتاہوہےخود اس کے اور اس کے صدقے کے ارادے کے درمیان حائل ہوجاتا ہوں ۔ پھر ابلیس وہاں سے چلا گیا اور یہ کہہ رہا تھا : اس کیلئے ویل ہے اور تعجب ہے کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو اس کی تعلیم دےدی ہے جس کو ابن آدم نہیں جانتا تھا۔ [13]



[1] ۔ سورہ نحل: 99

[2] ۔ سورہ زخرف:36

[3] ۔ سورہ اعراف: 201

[4] ۔ سورہ بقرہ: 168

[5] ۔ سورہ نجم: 53

[6] ۔ سورہ فصلت: 53

[7] ۔ سورہ ابراہیم: 22

[8] ۔ سورہ حج: 38

[9] ۔ سورہ محمد : 7

[10] ۔ مفاتیح الجنان/ تعقیبات  نماز صبح 

[11] ۔ سورہ ابراہیم: 22

[12] ۔ تفسیر قمي: 1: 172

[13] ۔ امالی مفید: 192-193 /ح 7

سوال بھیجیں