سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/9/18 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

ماہ محرم الحرام(۱۴۴۱ہجری) کاپہلابیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(پہلا بیان )

السلام علیکم ورحمة الله وبركاتہ

  اے اہل ایمان عزادارو ۔

اما بعد :

  اللہ تعالیٰ  قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ[1].جوشخص شعائر الٰہی  کا احترام کرتا ہے۔تو یہ دلوں کی پاکیزگی اور تقویٰ کے باعث  ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ ہم شیعہ امامیہ ،ائمہ معصومین علیہم السلام کے چاہنے والے اور ان کے دوست داروں میں سے ہیں اور  ہم اپنے عقیدے اور عمل میں ان کے مذہب کے پیروکا رہیں بیشک جو دلائل اور برہان ہمارے پاس ہے اُن پر ہمارا ایمان اور اعتقاد ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے حکم سے غیبت کبری ٰکے دوران ہم اپنے دینی اور فقہی اعمال  کو صحیح انجام دینے کے  لئے،چاہے عبادات میں سے ہو یا معاملات میں سے ،مجتہدین عظام اور  جامع الشرائط فقیہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

کیونکہ ہر مکلف کویا مجتہد ہونا چاہیے تاکہ  شرعی احکام کو ان کی تفصیلی دلائل کے ذریعے،کتاب (قرآن)، سنت   ،اجماع  اور عقل سے ثابت  کرسکے ،تو اس صورت  میں  یہ  مکلف فقیہ اور صاحب فن کہلائے گا۔

یا مقلد ہونا چاہیے اس صورت میں اسے اہل اختصاص کی طرف رجوع کرنا ہو گا ۔جیسا کہ ہر علم اور ہرفن میں یہی  طریقہ کار ہے اور یہ جا ہل  کا عالم کی طرف رجوع کرنے کے باب میں سے ہےا ور اس پر قرآن اور سنت میں  سے برہان  عقلی اوردلیل  نقلی موجود ہیں جیسا کہ دلیل وجدانی اور دلیل ذوقی عرفانی کشف اور شہودمیں سے ہیں۔

 یا محتاط ہونا چاہیے  اجتھا د اور تقلید کے درمیان،اگر مکلف اہل علم اور اہل فضل میں سے ہواور  احتیاط کے موارد کو جانتا ہو ۔

 اجتھاد ،تقلید اور  احتیاط کے اصول کی روشنی میں عقل اور شرع کی رو سے ایک قانون بنانا چاہیے تاکہ اپنے عبادی  اعمال  کواس کے مطابق انجام دے سکیں۔ مثلا نماز جو کہ دین کا ستون ہے۔  اور اسی طرح معاملات میں مثلا تجارت  کو جو فقہ اور فقاہت میں اس کے  اہل فن  سے سیکھا جائے  اور اس امر  عقدی اور عملی کی روشنی میں ،تمام شعائر حسینی  جو کہ شعائر الٰہی کی تجلّیات میں سے ہیں عقلانیت اور شرعیت کی دو اہم قیود سے مقید ہونا چاہیے۔ کیونکہ دین اسلام وہی امام حسین ؑ کا دین ہے ۔ دین اسلام  محمّدی الحدوث اور حسینی البقأہے ،اور امام حسین ؑکا انقلاب،  اورآپ کی عظیم شہادت ہی عقلانیت الحدوث والبقأ ہے جیسا کہ آپؑ کی شہادت  شرعیۃ الحدوث والبقا ٔہے  کیونکہ وہ  وحی آسمانی میں سے ہے۔( ان الله شاء ان یراک قتیلا)

اب اسلام کے مقدس شعائر میں سے ہر شعائر کو چاہے  قدیم ہو یا جدید ،یا زمان اور مکان کے اختلاف کے ساتھ وجود میں آیاہو ،نیز ماتم  اورعزاداری کے انعقاد کے اعتبار سے ،ضروری ہے کہ ہمیں قانون اور حکم الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیے۔ تاکہاولاً  ہمارا عمل صحیح انجام پائے اور  دوسرایہ ہےکہ خدا کی بارگاہ میں قبول ہو اور اس کا ثواب ملے۔

لہذا قیا م امام حسین ؑ اور آپ کا مقدس انقلاب قرآن کریم سے بالاتر نہیں ہےجیسا کہ پیامبر اکرم ﷺ سے روایت ہے۔ (رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ)(بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآ ن اُن پر لعنت بھیجتا ہے)

کیونکہ قرآن کی تلاوت   جو قرآن کے حکم کےخلاف ہورہی ہے  اور قرآن میں جو بیان ہوا ہے اس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔   اور اس کے احکام پر عمل نہیں ہوتا ہے ۔

 اور یہی حال ہے امام حسین ؑکےمجالس میں ممبروں کا ہے  امام ؑ کے ذاکرین ،مقررین اور شعرأ میں سے جو بھی ممبر پر جاتےہیں ،بہت سارے خطباء  امام حسین ؑ کے لئے مجلس پڑھتے ہیں اور امام حسین ؑ ان پر لعنت کرتے ہیں  اکثر شعرأ  امام حسین ؑ کی شان میں ا شعاربیان کرتے ہیں   اور امام حسین ؑان پر لعنت بیھجتا ہے اس طرح  بہت سارے  ذاکرین حضرت امام حسین ؑ کےمصائب کو ذکر کرتے ہیں اور امام حسین ؑ ان پر لعنت بیھجتاہے ۔ اور یہ مشکل اکثر شعائر حسینی میں ،اس  کے اہتمام کرنے والوں میں چاہے بچے ہوں ،یا بوڑھے ،کوئی  ذمہ دار  شخص  ہویا ادنیٰ خدمت گزار کم و بیش سب میں پائی جاتی ہے۔

  پس ضروری ہے انسان جو  کام  امام حسین ؑ کے لئے انجام دے رہا ہے وہ   اسلام کےمقدس اور سنہرے اصولوں کے مطابق ہو،پھر جو مسائل جدید  پیش آتے ہیں ان کے بارے میں انسان کو  فقہأ عظام اور مراجع کرام سے استفتا ٔ کرنا چاہیے اور جو مجتہد فتوای دینے کے اعتبار  جامع الشرائط ہو ،اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو ، دین کا محافط ہو ،خداکی اطاعت کرتا ہو ،اور ہوس نفسانی کی مخالفت کرتا ہو ،فقیہ وہ ہے جس کی تم نماز ،روزہ اور  حج  کے مسائل میں  تقکید کرتے ہو ، اور میدان جنگ میں جانے کے لئے اس سےفتوای اور  اذن جہاد لیتے ہو،اگر جنگ میں قتل ہوئے تو شہید کہلاتے ہو۔(احیاءعندربہم یرزقون)

اور اس طرح  یہ شعائر حسینی جن کا آپ اہتمام کررہے ہیں  قانون الٰہی سے خارج نہیں ہیں اور یہ شعائر  نماز سے زیادہ   اہمیت  نہیں رکھتے ہیں نماز  دین کا ستون ہے  اگر نمازبارگاہ الٰہی میں قبول ہو گئی تو دوسرےتمام   اعمال بھی قابل قبول  ہیں اگر نماز مردود ہو گئی تو دوسرے اعمال بھی مردود ہیں ( ان قُبلت قُبل ما سوأھا و  ان رُدّت رُدّما سوأ ھا )

سعادتمند ہے وہ شخص جو  شعائر حسینی ،اور سید الشھدا حضرت اباعبداللہ الحسین ؑ کی حقیقی معنوں میں قدر و معرفت   رکھتا ہے  اور اپنے نفس  کی اصلاح  کرتا ہے نیز تبلیغ اور ارشاد کے ذریعے معاشرے  سے برائیوں کو دور کرتا ہے  بیشک  امام حسین ؑ اپنے نانا کے امت کی اصلاح کے لئے(للاصلاح فی امّۃ جدّہ)  مدینے سے نکلے جیسا کہ امام حسین ؑ نے اپنے بھائی محمّد ابن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے  کہا :(انمّا خرجتُ للاصلاح فی امۃ جدّی)میں اپنے نانا کے  امت  کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں  اور یہ الٰہی ،قرآنی اور حسینی  اصلاح تمام شعائر  میں جاری اور ساری ہونا چاہیے ان شعائر میں سے ایک امام حسین ؑ کی زیارت ہے خصوصاہمارے دور میں  زیارت اربعین ،جس میں کروڑں لوگ   شرکت کرتے ہیں لہذا  مجالس اور مواکب  کے انتطام اور انصرام  میں دینی قوانین اور ضوابط کی رعایت  بہت ضروری ہے۔  سید الشھدا حضرت ٔ امام حسین ؑکی جانسوز شہادت پر ، اور آپ کے اہل بیتؑ میں سے ان افراد پر  جو آپ کے ہمراہ تھےاور آپ کے با وفأ اصحاب  (ع)پر،اورکربلا سے شام تک  آپ کےاہل بیت ؑکی اسیری پر  جن میں آپ کی بیٹیاں اور بہنیں اور دیگر مخدرات بھی شامل تھیں پورے  غم و اندوہ کے ساتھ گریہ اور ماتم کرنا چاہیے۔

اس دورمیں  ان قواعد اور ضوابط کو نیک اور باعمل جامع الشرائط مجتہد سے لیا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد شعائر  حسینی میں جو چیز اہم اور قابل ملاحظ ہے وہ غم اور حزن و بکأکی مختلف شکلیں ہیں  چاہے ممبر پر ہو یا سینہ زنی اور ماتم داری میں یا نذر ونیاز  بانٹنے کے دوران یا  کوئی دوسرا شعائر ہو ، حتی اشعار ، قصائداورلوگوں کے جذبات میں،مثلا کوئی شخص حسینیہ سے(  جہاں  امام حسین ؑ کی مجلس ہوتی ہے )گزرتا ہے  تو اس کو نوحہ پڑھنے والے کا طرز کسی معروف گلو کار کے گانے کا طرز  جیسا لگتا ہے  اور اس کا ذہن گانے کی طرف جاتا ہے یقینا یہ تمام  صورتیں  اشکال سے خالی نہیں ہیں۔ واللہ العاصم

اور  یہ با ت مخفی  نہ رہے  کہ شعائر حسینی ، برہان اورقرآن کے علاوہ ، عام نظر اورمعرفت سے ثابت ہے  جس پر ائمہ طاہرین کے زمانے سے آج تک عزاداری کی تاریخ گواہی دیتی ہے ۔

بتحقیق واقعہ سید الشہدأء ؑ ،اور آپ کا  مبارک اور مقدس شعائرجن کے لئے ثواب لکھا گیا ہے  خط احمر (سرخ لکیر ) ہے جو بھی اس سے تجاوز کرتا ہے  وہ گرجاتا ہے  اور اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بن جاتا ہےہمیں مقدس شعائر حسینی میں ذلت آمیزتحریفات سے  احتیاط برتنا چاہیے۔   یہ وہ سلگھتا ہوا    آگ کا  انگارہ  ہے جسے روندھا اور خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین ؑ اور عاشورای حسینی ان تمام عداوتوں اور دشمنیوں کے باوجود ہ  تا ابد زندہ  رہے گا۔ والحمدللہ رب العالمین۔

العبد

عادل ابن السید علی العلوی

الحوزۃالعلمیہ۔قم المقدسہ



[1]۔  الحج: 32.

سوال بھیجیں