سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

فلسفہ توحید۔ سید عادل علوی مدظلہ

فلسفہ توحید

آقای سید عادل علوی مدظلہ                                                            ترجمہ: مرغوب عالم عسکری ہند

افی اللہ شک؟  کیا وجودخدامیں کوئی شک ہے؟ ہرگز نہیں۔

اس لئے کہ اثبات صانع عالم پرقطعی دلائل وعقلی براہین کافی ہیں ۔اوروجودخداومعرفت توحیدکیلئے انفاس خلائق کی آمدوشد کی تعداد کے مثل ادلہ وطرق معرفت پائے جاتے ہیں۔

شعر:     ففی کل شی ء لہ اٰ یۃ              تدل علیٰ انہ الواحد

ترجمہ: ہر شئے میں اللہ کی نشانی موجود ہے جواس کی وحدانیت ویکتائی پردلالت کرتی ہے۔

"لیس کمثلہ شی ء" کوئی شی ء اس کے مثل نہیں وہ عالم وقادر، اورحی ہے۔ہرشی ء اس کے قبضئہ قدرت میں ہے اورتمام امور کی بازگشت بھی اسی کیطرف ہے لیکن ہمارے اس تاریکی اورضلالت  کے دور میں ، کہ جس میں کفروالحادی مکاتب فکرمثلاکمیونزم مختلف راستوں ، مسموم فکروں، وہمی وجود سازفلسفوں ،نیز بے بنیاد وضعیف آئیڈیالوجی کے ساتھ ہمارے اسلامی بلاد والہی معاشرے میں سرایت کرنے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔اس لئے کہ انکے اہداف ومقاصدواستعماری منصوبے فقط اس بات میں منحصرہیں کہ وہ ہمارے نوخیز جوانوں کوروح دینی وجذبہ اسلامی سے دورکردیں ۔اس لئے کہ جب قیدوں اوربندیوں سے آزادہوجائیں گےتوانکے اموال واملاک کوہڑپ کرنااورانکوزنجیر غلامی پہناناانکے لئے آسان ہوجائےگا۔

اورپھرپوری آزادی کیساتھ وہ اپنی خبیث لذتوں اورناپاک شہوتوں کی تحصیل وتکمیل کرسکیں گے۔اسی حوالہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہردور اورہرزمانہ کےعلماومحققین نے مختلف علوم وفنون میں اثبات وجودخالق کیلئے فلسفی دلائل وعلمی براہین کئے ہیں جن سے پورے طورپروجودباری تعالیٰ کااثبات ہوجاتاہے۔

دنیائے بشریت نے جب شعوروادراک کی منزل میں قدم رکھاہے اس عالم کوَن کیلئے ایک خالق وصانع کے اعتقاد سے بےبہرہ نہیں رہی ہے لیکن گذشت ایام  ومرور زمان کے ساتھ حقیقت امراس پرکبھی کبھی مشتبہ ہوئی اوراپنے عقیدہ سے منحرف ہوگئی اوراس انحراف کے نتیجہ میں تشخیص نہ دے سکی کہ اسکی گمشدہ چیزکیاہے؟ اوراس کامطلوب واقعی اورمقصود حقیقی کیاہے؟

اوریہ بات کہ بشرآغاز آفرینش سے ایک خالق کامعتقدہے(اگرخالق کے واقعی مصداق کے سلسلے میں اشتباہ )یہ سلیم فطرت کی آواز پرلبیک کہنے  کےمترادف ہے اسلئے کہ ہربشرکی پاکیزہ فطرت پکارپکارندا دے رہی  ہے کہ اس کائنات کاایک خالق اورایک صانع ہے۔ جس نے اس کائنات کوخلق کیااورفیض وجودسے بہرہ مندکیا۔

سلیم فطرت کے تقاضے کےتحت اس عالم فانی کیلئے صانع حکیم اورمدبرکاوجودضروری ہے۔اورانسان ابتدائے خلقت سے اسی فطرت کی باطنی نداء کے پیچھے دوڑ رہاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنی جبلت اورفطرت کے اعتبارسے عبودیت پہ نیز اس اعتقاد پہ پیداہی کیاگیاہے کہ اس عالم ہستی کیلئے ایک خالق عالم وحی وقادر موجودہے۔

لہذااثبات صانع کے اوپرانسان کی سلیم فطرت بہترین دلیل ہے۔ اور اس دلیل کے علاوہ دوسری تمام عقلی ونقلی دلیلیں اسی دلیل فطرت کے اجاگرکرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔اس بناپرہم بھی دلیل فطرت کوروشنی بخشنے کیلئے بطوراجمال چندعقلی ونقلی دلیلیں پیش کررہے ہیں۔

عقلی دلائل

1۔ دلیل امکان:وہ یہ ہیکہ تمام موجودات کوباعتبارموجود لحاظ کیاجائے ۔ جیساکہ ہم بالبداہہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ عالم خارج میں بعض موجودات وجود خارجی رکھتے ہیں تواب جوچیز موجودہے وہ یاواجب الوجود ہے یاممکن الوجود اسلئے کہ وجودکامفہوم تین طرح سے متصورہوتاہے۔

اول: "واجب الوجود لذاتہ" یعنی جس کاوجودبالذات ضروری ولازم ہواسکے لئے کسی علت ایجادکی احتیاج نہ ہوبلکہ وہ خودعلت العلل ہواورتمام سلسلہ معلولات اسکی منتہی ہوتے ہوں جیسے وجودخدا۔

دوم: ممتنع الوجود۔یعنی جس کا عدم لازم وضروری ہو اوراس کے عدم کیلئے کسی علت کی ضرورت نہ ہوجیسے کہ شریک باری تعالیٰ ۔

سوم:ممکن الوجود۔ یعنی جس کی طرف وجود وعدم کی نسبت برابرہو کہ علت کی صورت میں اس کا وجودممکن اورعدم علت کی صورت میں اس کاعدم ممکن ہو جیسے خداکے علاوہ ہرشئے۔

پس وجودخارجی اگرواجب الوجود ہے توہمارا مقصدحاصل ہے۔اوراگرممکن  الوجود،ہے توایسی صورت میں اسکے لئے ایک واجب الوجود کاہونالازم آئیگا حدوث کےاعتبارسے بھی اوربقاکےلحاظ سے بھی ۔

ورنہ وہ مستلزم دورہوگا یعنی بعض ممکنات کوبعض کے لئے علت فرض کرناپڑے گا۔یااس کے برعکس ،یعنی  یہ کہ بعض کابعض کے لئے علت ہونافرض کرنا پڑے گا۔ یامستلزم تسلسل ہوگا۔

یعنی جملہ ممکنات کیلئے ایک غیرمتناہی سلسلہ فرض کرناپڑے گا۔اس طرح سےکہ اس سلسلہ غیرنہائی کے درمیان ہرسابق اپنے لاحق کیلئے علت ہو۔اور یہ دونوں صورتیں (دور وتسلسل )باطل ہیں۔

پہلی صورت یعنی دور باطل ہے۔ اسلئے کہ دورفرض کرنے کی صورت میں ایک ہی شئے کا آن واحد میں موجودومعدوم ہونالازم آئیگا۔کیونکہ دور کہتے ہی ہیں "توقف الشیء علیٰ نفسہ"کویعنی ایک شئے کاوجوداپنی ہی ذات پرموقوف ہو۔اورایک چیزکاوجودخوداپنی ذات پرموقوف ہونامحال ہے۔اسلئے کہ اس سے "اجتماع نقیضین" لازم آتاہے۔

اسی طرح دورسے یہ بھی لازم آتاہے کہ ایک ہی شئے مقدم بھی ہواورمؤخربھی ہو اوراس کےبرعکس ۔نیزیہ کہ ایک شئے علت بھی ہواورمعلول بھی اوراس کے برعکس۔

یہ ساری چیزیں یعنی ایک ہی شئے کاخوداپنی ہی ذات   پہ موقوف ہونا، ایک ہی شئے کامقدم ومو خرہونا، ایک ہی شئے کاعلت ومعلول ہونابالبداہہ باطل ہیں۔

دوسری صورت یعنی تسلسل بھی باطل ہے ۔ کیونکہ تسلسل کی صورت میں ،یاتواس سلسلہ میں کوئی واجب یعنی علت غیرمعلول ہوگاتوخلاف فرض ہونالازم آئیگااسلئے کہ ایسی صورت میں یہ سلسلہ اسی واجب تک منتہی ہوجائیگا۔کیونکہ اس واجب کاکوئی سابق نہیں ہے حالانکہ ہم نے  سلسلے کو غیرمتناہی فرض کیاہے۔

دوسرے یہ کہ اس فرض سے ہمارامطلوب ثابت ہورہاہے۔یادوسری صورت یہ کہ اس سلسلہ میں کوئی بھی واجب نہ ہوگاتوایسی صورت میں حتمی طورپراس سلسلہ کے سارے افرادکاممکن ہونالازم آتاہے۔ اوراسی کیساتھ ہی ساتھ تمام ممکنات کامعدوم ہونابھی ضروری ہوگا۔اس لئے کہ ممکن الوجودباالذات نہیں ہوتابلکہ علت کا محتاج ہوتاہے پس اگر اس کی علت بھی ممکن رہی تواس کے لئے بھی ایک علت کی ضرورت ہوگی یہاں تک کہ یہ سلسلہ ممکنات موجودباالذات تک منتہی ہوگاجوواجب الوجودلذاتہ ہے اوریہ بات بھی آپ کے فرض کے خلاف ہے۔

جب یہ بات طے ہوگئی کہ دور وتسلسل باطل ہے توواجب الوجود کاموجودہوناثابت ہوگیاجوخالق کائنات اورآفرینندہ جمیع ممکنات ہے۔

2۔ دلیل حدوث :

مسلک متکلمین: یہ ہے کہ موجود کوحادث ہونے کے اعتبار سے لحاظ کیاجائے اوراس طرح دلیل قائم کی جائےکہ" العالم متغیرباالبداھۃ"عالم بدیہی طورپر تغیرپذیرہے۔"کل متغیرحادث"ہرمتغیرحادث ہے اس لئے ہرحادث یامسبوق بہ غیرہے یامسبوق بہ عدم پس نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ عالم حادث  ہے۔

اوریہ بات بھی مسلم اورناقابل انکار ہے کہ ہرحادث کے لئے ایک محدث کاہوناضروری ہے۔لہذاعالم کیلئےحادث ہونے کے ناطے ایک ایسے محدث کاہونالازم ہے کہ جوخود حادث نہ ہواسلئے کہ اگر وہ خود حادث ہوگاتواسکے لئے ایک دوسرےمحدث کی ضرورت ہوگی اوراگردوسرامحدث بھی حادث ہوگاتو اسکے لئے تیسرامحدث کاہوناکاہونالازم آئے گا۔ یہاں تک کہ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہوگاجس کا لازمہ دوروتسلسل ہے اوریہ دونوں باطل ہیں۔

لہذاضروری ہے حادث کا سلسلہ ایک  ایسے محدث تک منتہی ہوجوخودحادث نہ ہو بلکہ محدث ازلی قدیم ہو ۔

3۔ دلیل حرکت :روش طبیعین۔وہ یہ ہے کہ موجود کوجسم اورمتحرک ہونے کے اعتبارسے دیکھاجائے۔

موجودمن حیث ھو :جسم ہے اوربدیہی طورپرمتحرک ہے اورہر متحرک کیلئے ایک محرک غیرمتحرک کاہوناضروری ہے اوروہی محرک فاعل وموجداول ہے۔

2۔ موجودمن حیث ھو :جسم مرکب ہے اورہرجسم مرکب کیلئے ایک ترکیب دہندہ بسیط کاہونالازم ہے اوروہ ترکیب دہندہ بسیط  غیرمرکب اورفاعل اول ہے۔

3۔ تمام اجسام جسمیت میں مشترک ہیں اورہر جسم دوسرے جسم سے حقیقت غیرجسمیہ میں امتیاز رکھتاہے، لہذا اس امتیاز کیلئے ایک علت درکارہے،اس لئے کہ ترجیح بلامرجح ممتنع ہے۔

اب وہ علت امتیاز جسمیت مشترکہ نہیں ہوسکتی ہے ،اورنہ ہی وہ حقیقت غیرجسمیہ علت امتیاز بن سکتی ہے جوتمام اجسام میں وجہ امتیاز ہے کہ جسے صورت نوعیہ بھی کہتے ہیں۔

لہذا مانناپڑے گاکہ علت امتیازکوئی ایسی شئی ہے جوان اجسام سے خارج ہے اوروہی صانع اول ہے کہ جسے بسیط مطلق کہتے ہیں۔

4۔ دلیل نظم:۔یہ بات واضح ہے کہ ہروہ شئی جس میں نظم وضبط پایاجائے اسکے لئے ایک ناظم اورتنظیم دینے والے کاہوناضروری ہے کہ جوخودعالم وقادروحکیم ہو۔اوریہ عالم کون وفساد ذرہ سے لیکرآفتاب اورآفتاب سے لیکرکہکشان وفلک الافلاک تک ایک خاص نظم ونسق کے تحت واقع ہے کہ اگرسرموبھی اختلاف ہوجائے توسارا عالم تباہ وبربادہوجائے۔پس اسکے لئے ایک ایسے صانع ،حکیم اورمدبرکاہوناضروری ہےکہ جو " لاتاخذہ سنۃ ولانوم " کامصداق ہو۔

ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مادہ جس میں حیات واحساس ،فکرایجاد وتخلیق کاتصور نہیں اس عظیم جہان کیلئے مؤثر بن سکے ۔اورکیسے ہوسکتاہے کہ جس مادہ کی تاثیر ادنیٰ ہے وہ عظیم جہان میں جومادہ سے کہیں زیادہ بلندوعظیم ہےاثرپیداکرسکے۔

لہذا یہ تکامل ونظم ونسق باحکمت جواس وسیع وعریض عالم کے نظام کاحکم فرماہے۔ یہ برہان قاطع اوردلیل ساطع ہے صانع عالم کے وجودپر۔

اوراگراس کائنات کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تواپنے جسم ہی بارے میں غور وفکرکروکہ جس میں اعضاء وجوارح ،اطراف وجوانب ،نشیب فرازہیں توتمہیں یقین ہوجائے گاکہ کوئی خالق ومصورہے کہ جس نے تم کوپیداکیا اورتمہاری تصویرکشی کی۔ اوراسی سے حدیث میں بھی آیاہے۔"من عرف نفسہ فقدعرف ربہ" جس نے خود کوپہچان لیااس نے خداکی معرفت حاصل کرلی،یعنی خودشناسی خداشناسی کاذریعہ ہے۔

تونتیجہ یہ نکلاکہ اس عالم کاایک صانع اورخالق  ہے جو صانع ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے ۔اوراس بات پرخود اس کائنات کی نشانیاں نظم ونسق ،ترتیب وتدبیر پردلالت کرتی ہے۔

دلیل علت ومعلول:۔یہ بات بھی روشن وبدیہی ہے کہ ہرمعلول کیلئے ایک علت کاہوناضروری ہے۔ چنانچہ ہم اس کائنات میں علت ومعلول کے قوانین ونظام کو دیکھتے ہیں اورواضح طورپرمحسوس کرتے ہیں جسکی وجہ سے ہم پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ تمام معلولات ایک علت اولی کاوجود لازم ہے کہ جس نے تمام اپنے وجود مطلق ،اورمطلق وجود سے فیض وجود بخشاہے، اسی کانام خداہے۔

۔:نقلی دلیل:۔

"سُئل إعرابي عن الدّليل على وجود الله تعالى فقال: البعرة تدل على البعير، والرّوثة تدل على الحمير، وأثار القَدم تدلّ على المسير،فھیکل علوی بھذہ اللطافۃ ومرکز سفلیٰ بھذہ الکثافۃ کیف لایدلان علیٰ اللطیف الخبیر"۔

ایک اعرابی نے معصوم سے سوال کیا کہ وجود خداپرکیادلیل ؟ تومعصومؑ نےارشاد فرمایاکہ اونٹ کی مینگنی دلالت کرتی ہے اونٹ پر،گدھے کی لیددلالت کرتی ہے گدھے کے وجودپر،پیرکے نشانات نشاندہی کرتے ہیں کہ ادھرسے کوئی گزراہے پس یہ عریص کرہ سماوی اپنی لطافت کے ساتھ اوریہ بسیط کرہ ارضی اپنی کثافت کے ساتھ کیسے صانع عالم کے وجودپر دلالت نہیں کرتے کہ جولطیف وخبیرہے۔اس کے علاوہ سینکڑوں قطعی دلائل وعقلی براہین صانع عالم کے وجودپرموجودہیں مثلاً دلیل حسابات(ریاضیات)اوراحتمالات قطعیہ وغیرہ۔

لیکن بحث توحیدمیں جملہ دلائل نقلی ودلائل عقلی آیات وروایات کے حریم سے خارج نہیں ہیں۔ اس لئے کہ جملہ انبیاء واوصیاء خدا نے تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں سب سے پہلی جوصدابلندکی ہے وہ توحیدوایمان باللہ کی دعوت ہے اوروحدہ لاشریک کے علاوہ تمام خداؤں کی نفی کی۔

اوریہ بھی ایمان ہے باللہ اوراس سے جو حیات جلوہ گر ہوتی ہے یہ فقط ایک مسئلہ فکری نہیں ہے کہ جس کاحیات سے کوئی رابطہ نہ ہو بلکہ ایک ایسامسئلہ ہے کہ جس کا عقل وقلب اورحیات سبھی سے برابرکاتعلق ہے۔

اوریہ ایمان باللہ طبقاتی اختلافات یاجابر وظالم حکام وطاغوت کے ظلم وجورکے نتیجہ میں بھی وجودنہیں آیااسلئے کہ یہ ایمان بااللہ اس طرح کے تمام اختلافات وتناقضات سے پہلے تاریخ بشریت میں موجودتھا۔اسی طرح یہ ایمان بااللہ حوادث روزگار کے مقابلے میں خوف وہراس کے باعث وجود میں نہیں آیااسلئے کہ اگریہ ایمان باللہ خوف ورعب کانتیجہ ہوتاتوطول تاریخ میں بزدل وخوفزدہ افراد کی دینداری اورتدین میں اکثریت ہوتی جبکہ طول تاریخ میں جوافراد مشعل راہ کے حامل تھے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ توانااورثابت قدم تھے، اللہ کی راہ میں انھیں کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پرواہ نہ تھی ۔

توایمان باللہ ان تمام مذکورہ امورنتیجہ میں وجود نہیں آیابلکہ ایمان باللہ انسان کی سلیم فطرت اورضمیر باطنی کی آواز پہ لبیک کہنے کانتیجہ ہے جس سے خالق کے ساتھ انسان کے جبلی وفطری تعلق کاپتہ چلتاہے۔

جب ہم اللہ کو خالق کون ومکاں ،نظم دہندہ کائنات ،حکمت وتدبر سے ہم آہنگ مربی تسلیم کرچکے ہیں تو ضروری کہ اس کائنات میں اس کی ایجادات وتخلیقات کے اس صفات سے بھی واقف ہوں کہ جو اس کے مخزن علم وحکمت سے کشف ہوتے ہیں۔

اس عظیم کائنات کے عمق میں کچھ طاقتیں جو تعجب خیز ومحیرالعقول ہیں وہ ہدایت ہیں اس بات کی طرف اللہ کی قدرت واختیار کے پیش نظر غیر ممکن ومحال نہیں ،ہرشئی جس میں بوئے حیات اوراحساس وادراک کا تصور پایا جاتاہے وہ سب ایک ایسے مبداحیات کی طرف منتہی ہیں جو باالذات "حی اورقیوم " ہے جس طرح وحدت نظام عالم یعنی کائنات کاایک ڈھرے پرچلنادن ورات کاایک اسلوب پر حرکت کرنااشارہ ہے ایک ایسے خالق کی طرف جو واحد اورلاشریک ہے۔خداوندعالم تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے اور وہ صفات اس کی ذات میں داخل ہیں، خارج ازذات ہو کر نہیں پائے جاتے اس لئے کہ اگر صفات کوزائد برذات تسلیم کرلیاجائے تو تعدد قدماء لازم آئے گا جس کابطلان سابق میں گزرچکا ہے جیسے قدرت ،علم اورحیات۔ پس اس کی قدرت عین حیات ہے اورحیات عین قدرت ہے اگر چہ یہ الفاظ معانی ومفاہیم کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن حقائق و واقعیت کے لحاظ سے متحدہیں۔

اس کے علاوہ پروردگار عالم کے کچھ صفات فعلیہ بھی ہیں(جو اس کی ذات سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ خارج از ذات پائے جاتے ہیں اوراس کا سمجھنافعل پر موقوف ہے)متلا خداکے رازق ہونے کی صفت مخلوقات کورزق دینے کی وجہ سے ہے کہ جس کاوجود خارج میں ذات کے بعد متحقق ہواہے۔

پس خدا کاایک وقت رزق دینا اوردوسرے وقت نہ دینا کچھ کو اپنے فیض سے بہرہ مند کرنا اورکچھ کو نہ کرنا اسکی حکمت مشیت کے تحت ہے(جس کا ادراک بندے کے بس سے باہر ہے)

پروردگار عالم کے بہت سے اسماء حسنیٰ ہیں (جس کے ذریعہ اسے پکارا جاتاہے مثلاً : رحمن ،رحیم ،قدوس وغیرہ)اسی طرح خدا کاصفات جلالیہ سے متصف ہونا بھی متحقق ہے کہ جیسے صفات سلبیہ کہتے ہیں یعنی وہ جسم  نہیں رکھتا،وہ مرکب نہیں ہے، اسکے لئے محل(جائے سکونت)نہیں ،وہ اپنے غیر کے ساتھ متحد نہیں ،وہ حوادث کاشکار نہیں ہوتا،لذت والم سے دوچار نہیں ہوتا،وہ بصارت کامحتاج نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ،اسکے لئے ظاہر وباطن نہیں ،یہ تمام صفات وہ ہیں کہ جس سے خدا منزہ ومبرا ہے اوران تمام صفات کا مرجع ایک صفت ہے وہ یہ کہ خدا کی ذات والا صفات امکان پذیر نہیں ہے اس لئے کہ وہ واجب الوجود ہے اور واجب الوجود کی شان یہ ہے کہ وہ امکان سے متصف نہ ہو لہذا جملہ مذکوہ صفات کاسلب اس سے لازم وضروری ہے ، یعنی لامحالہ یہ صفات اسکے اندر نہیں پائی جاسکتی۔

صفات ثبوتیہ

فہوسبحانہ وتعالیٰ قادر۔

خداہرشئے پر قادر ہے خواہ  وہ کسی کام کو اپنے قصد وارادہ سے انجام دے یا نہ دے کیوں؟ اس لئے کہ عالم اپنے سکون وحرکات ،اجسام واعراض میں تغیر پذیر ہونے کے اعتبار سے حادث ہے جس کیلئے ایک ایسے موثر کاہونالازم ہے جو قادر ومختار ہو ورنہ موثر کاممکن ہونے کے ساتھ ساتھ اثر سے تعلق لازم آئے گا جس کی وجہ سے یاعالم قدیم ہوجائے گایا موثر حادث۔۔۔ اوریہ دونوں صورتیں یونی عالم کا قدیم ہونایا موثر کا حادث ہونا باطل ہے لہذا ثابت ہو گیا کہ خدا ایک ،قادر ومختار ہے۔

 

وہو عالم۔

خدا مختار ہے ۔ اور ہر مختار عالم ہوتاہے اس لئے کہ اس کافعل  اس کے ارادے کا تابع ہوتاہے اورعلم کے بغیر ارادہ ممکن نہیں لہذاخدا کا عالم ہونا ضروری ہے۔

دوسری  دلیل ۔خدا افعال محکمہ کا فاعل ہے کہ جس کا مشاہدہ مخلوقات خدا کے درمیان نیز آیات ملکیہ نفسانیہ کی صورت میں ہر ذی شعور پر واضح وظاہر ہے پس جس کی شان ایسی ہو کہ افعال محکمہ کاصدور اس کی ذات سے ہو تو اس کا عالم ہونا ضروری ہے۔

اس کا علم تمام کلیات وجزئیات کو سمیٹے ہوئے ہے اسی طرح اس کی طرف تمام علوم کی نسبت مساوی ہے وہ اسرار و رموز کاجاننے والا ہے کوئی خشک وتر صغیر وکبیر ایسا نہیں ہے جو اس کے علم میں  نہ ہو حتیٰ وہ پتہ جو درخت سے زمین پر گرتاہے وہ بھی اس کے علم کے دائرے کے اندرہے۔

انہ  حی ۔

خدا"حی" یعنی زندہ ہے اس لئے کہ عالم وقادر ہے اور علم وقدرت کے مجموعے ہی کانام "حی" ہے۔

انہ مرید۔

خدامرید ہے اس لئے کہ امر نہی کرتاہے افعال کی ایجادایک خاص وقت میں اس کے اختصاص پر دلیل ہے جس کا وجود ارادہ کے بغیر ناممکن ومحال ہے لہذا خدا مریدہے۔

انہ مدرک۔

خدا مدرک یعنی ہر شئے کا ادراک کرتاہے اس لئے کہ وہ حی ہے اور صفت ادراک صفت علم سے اخص ہے جیسا کہ دلائل نقلیہ یعنی آیات وروایات سے ظاہر ہوتاہے۔

انہ قدیم

یعنی خداہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا اس لئے کہ وہ واجب الوجود ہے اور واجب الوجود کیلئے مطلقاً عدم محال ہے وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے اوروہی باطن ہے۔

انہ متکلم صادق

خدا  متکلم  ہے یعنی جس چیز میں چاہتاہے کلام پیدا کردیتاہے خدا کا متکلم ہونا  آیات و روایات نیز اجماع کے ذریعے ثابت ہے۔

خدا جھوٹ نہیں بولتا اس لئے کہ جھوٹ امر قبیح ہے اورخدا ہر بری شئے سے پاک ومنزہ ہے خدا جہالت ،عجز و غفلت نیز جملہ نقائص سے بری ہے اس لئے کہ وہ کمال مطلق ومطلق کمال ہے تمام صفات کمالیہ از جہات گوناگوں اس کی ذات میں مجتمع ہیں۔

وہ یکتاہے۔ وہ ایسا واحد ہے جس کا کوئی  مثیل نہیں ۔وہ ایسا قدیم ہے جو ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہےگا وہ ایسا سمیع وبصیر ہے جس سے خلائق متصف نہیں "ولم یکن لہ کفواً احد"  اس کا کوئی  ہمسر نہیں۔

پسندیدہ و دلنشیں ہے مولائے کائنات کاقول جو انھوں نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا:" کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشھادة کل موصوف انہ غیر الصفة و شھادة کل صفة انھا غیر الموصوف فمن وصف اللّٰہ سبحانہ فقد قرنہ ومن قرنہ فقد ثناہ و من ثناہ فقد جزاہ و من جزاہ فقد جھلہ"

کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیوں کہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے لہٰذا جس نے ذات الٰہی کے علاوہ صفات مانیں اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا‘جو دوئیت کا قائل ہوا اس نے اسے قابل تقسیم وتجزیہ جانا اورجس نے اسے قابل تقسیم وتجزیہ جانا اس نے  اللہ کی معرفت سے غفلت برتی۔

دعائے صباح میں مولائے کائنات نے ارشاد فرمایا: " يا من دَلَعَ لسان الصباح بِنُطْقِ تبَلُّجِهِ، وسَرَّح قِطع الليل المظلم بغياهب تلجلُجه، وأتقن صنع الفَلك الدوّار في مقادير تبرُّجه، وشعشع ضياء الشمس بنور تأججه، يا من دل على ذاته بذاته، وتنزه عن مجانسة مخلوقاته، وجلّ عن ملاءمة كيفياته، يا من قَرُبَ من خطرات الظُنون، وبَعُدَ عن لحظات العيون، وعلم بما كان قبل أن يكون"

ترجمہ: جس نے صبح کی زبان کو روشنی کی گویائی دی اور اندھیری رات کے ٹکڑوں کو لرزتی تاریکیوں سمیت ہنکا دیا اور گھومتے آسمان کی ساخت کو اسکے برجوں سے محکم کیا اور سورج کی روشنی کو اسکے نور فروزاں سے چمکایا۔

 اے وہ جس نے اپنی ذات کو دلیل بنایا جو اپنی مخلوقات کا ہم جنس ہونے سے پاک اور اسکی کیفیتوں کی آمیزش سے بلند ہے اے وہ جو ظنی خیالوں سے قریب ہے اور آنکھوں کی دید سے دور ہے اور ہونے والی چیزوں کوہونے سے پہلے جان چکا ہے ۔

الابذکر اللہ تطمئن القلوب

 


سوال بھیجیں