سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

ماہ محرم الحرام(۱۴۴۱ہجری) کاتیسرابیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(تیسرا  بیان)

السلام علیکم ورحمة الله وبركاتہ  اے اہل ایمان عزادارو ں۔

 اما بعد:

 اللہ تعالیٰ  قرآن کریم میں ارشاد فرماتا  ہے۔﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾[1].   جوشخص شعائر الٰہی  کا احترام کرتا ہے۔تو یہ دلوں کی پاکیزگی اور تقویٰ کے باعث  ہے ۔

بیشک جس کےدل میں تقویٰ الہی ہو وہ شعائر الٰہی کا احترام اور تعظیم کرتا ہے۔ اسی طرح  شعائر الٰہی میں سے  عزیز اور ولی خدا   سید الشہدا ؑامام حسین ؑ کے شعائرکوبھی محترم سمجھتا ہے  ۔ وہ حسین ؑ جس کا ذکر عرش پرلکھا گیا ہے  ۔ (الحسين مصباح هدىً وسفينة نجاة). بیشک امام حسینؑ ہدایت کا چراغ اور  نجات کی کشتی ہیں ۔

(اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ)بیشک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے اس پاکیزہ مقام پر جو صاحبِ اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

 وہ لوگ جو اللہ تعالٰی اورامام   حسینؑ کے  شعائرکی تعظیم کرتے ہیں۔

۱۔ اپنے نفس کی خواہشات کے بغیر تعظیم کرتے ہیں۔

۲۔    جہالت کے بغیر تعظیم کرتے ہیں۔

۳۔   ان شعائر سے خدا کی خوشنودی کا قصد کرتے ہیں۔

۴۔  قوانین شرع مقدس اسلام کے مطابق  ان شعائر کا اہتمام اور احترا م کرتے ہیں ۔

شعائر حسینی کی مشروعیت کو کتاب ،سنّت ،اجماع اور عقل کے ذریعے جاناجاتا ہے اور اس کو  جامع الشرائط  مجتہدین ثابت کرتے ہیں۔ اور یہی اصل قاعدہ ہے جس پر  غیبت کبریٰ کے دوران عمل کیا جاتا ہے پس جب شعائر الٰہی کی مشروعیت  ادلّہ تفصیلیہ قرآن ،سنّت ،اجماع اور عقل کے ذریعےعلماء اصول کے نزدیک جو اہل بیت ؑ  کے پیروکار ہیں ثابت ہوجاتی ہے  تو اس طرح شعائر حسینی کے لئے  بھی جو اس اصل کا فرع اور تجلّیات شعائر الٰہی میں سے ہیں  مشروعیت ثابت ہو جاتی ہے اگر شعائر الٰہی  درخت کی اصل اور اس کی جڑوں کی طرح ہیں تو وہ اس کی شاخیں اور پھل حضرت امام حسینؑ کے شعائر  ہیں۔

اور یہ واضح ہے کہ جو    ادلہ اصل میں جاری ہوتے ہیں وہ  اس کے فرع میں بھی جاری ہوتے ہیں  اس پر برہان ،قرآن اور عرفان یعنی دلیل عقلی،دلیل نقلی اور دلیل شہودی ذوقی پائی جاتی ہے ۔پس  دلیل عقلی او ر نقلی میں سے جو   خوشنودی خدا کی معرفت  کو کسب  اور شعائر الٰہی کو ثابت کرنے میں جاری ہوتی ہے وہ دلیل ،شعائر حسینی کی تعظیم کو بھی ثابت کرتی ہے جیسا کہ علماء اوصول کے پاس جو کہ اہل بیت ؑ کے پیرو کار ہیں یہ بات  ثابت ہے۔

 پس عزاءاور شعائر  حسینی کو قائم کرتے وقت خوشنودی امام حسین ؑ کو ملحوظ نظر  رکھنا چاہیے ہمیں مجالس اور شعائر حسینی کے  اہتمام میں اپنی خواہشات اور ہوای نفسانی کی  اتّباع نہیں کرنا چاہیے  اور ہم جو شعائر حسینی کے عنوان سے انجام دے رہیں ہیں  یہ ظاہری طور پر  امام حسین ؑکے نام پر منارہے ہیں لیکن یہ  حقیقت اور باطن  میں  انانیت ،حب الذات ، جہالت اورحماقت ہے۔

  مثلا کوئی شخص  امام حسین کے لئے سینہ زنی اور عزاداری کرتا  ہے مگر یہ کہ کوئی گلو کار یا  ناچنے والا شخص غربی کلچر میں ڈوبا ہوا ہو،یا بعض اشعار اور قصیدے ہیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے -

عقل اور شرع کے اعتبار سےضروری ہے کہ جو شخص مجالس ، عزاداری کو قائم کرتا ہے ا  سے  اللہ تعالٰی اور امام حسین ؑ راضی ہوں اورانسان  یہ جان لیں   کہ اسے غیبت کبری کے دوران مجتہد با تقوی کی طرف رجوع کرکے ادلہ شرعیہ اور اس کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے ،جس طرح دشمن کے ساتھ جہاد کےلئے مجتہد سے فتوی لیا جاتا ہے اسی طرح شعائر حسینی کے لئے بھی فتوی لینا چاہیے العیاذباللہ (اللہ سے پناہ مانگتا ہوں  )ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنھوں نے امیرالمومنین حضرت علی ؑ اور سید الشہدا حضرت امام حسینؑ کے کمر کو توڑ دیا ہے۔

  بلکہ دین مبین  اسلام اور کلام الٰہی قرآ ن مجیدکے نورانی تعلیمات کو پائمال کیا ہے امام حسین ؑ فرماتے ہیں ’’:  قصم ظهري إثنان: عالم متهتك وجاهل متنسك‘‘ کبھی آپ کسی جاہل کو مجالس،عزاداری  اوردیگر  شعائر حسینی میں مراجع عظام اور مجتہدین کرام کی طرف رجوع کئے بغیر  اپنی جہل پر عمل کرتے ہوئے   دیکھتے ہیں ،  ان شعائرکو وہ  اپنی جہل سے عبادت سمجھ کر انجام دے رہا ہے لیکن حقیقت میں اسے یہ علم نہیں ہے کہ وہ حضرت امام حسین ؑ کی کمر توڑ رہا ہے  جیسا کہ محرم الحرام     61ھ؁ کو عاشورا کے دن حضرت اما م حسینؑ کی کمر کو توڑاگیا  اور آپ کے جسم اطہر کو گھوڑوں کے پاوں تلے روندا گیا: ربّ تالٍ للقرآن والقرآن يلعنه ۔بہت سے لوگ قرآن کی  تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے اور بہت سارے شعرا ء، خطباءاور زاکرین  امام حسین ؑ کےلئے  قصیدے پڑھتے ہیں اور امام حسین ؑ ان پر لعنت کرتےہیں۔

  بہت سے  خطباءممبروں پرایسی باتیں کرتے ہیں جو دین اسلام کی تباہی اور شریعت  مقدس اسلام کی توہین کا سبب بنتی ہیں ۔اور کتنے شعرا ءاور ذاکرین ہیں جو بات  ان کو نہیں کہنا چاہیے وہ کہہ دیتے ہیں  جس سے اللہ تعالٰی اس کے رسول اور سید الشہدا امام حسینؑ غضبناک ہوجاتے ہیں جیسا کہ  اگر ان کے کلام میں غلو  پا یا جائے جوبہت ہی مذموم ہے اور شرع مقدس میں جس سے  ہوا ہے اور  اس کے انجام دینے والا رسول خدا اور اہل بیت عليهم السلام کی لعنت کا مستحق بنتا ہے۔

سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر شعائر ظاہری  طور پر شعائر حسینی میں سے ہیں ان  کے لئے جو ان شعائر کو انجام دیتے ہیں لیکن اہل علم اور  بابصیرت لوگوں کے نزدیک یہ یزیدی شعائر اورعقائد میں سے شمار ہوتے ہیں کیونکہ اس  کی بنیاد جہل پر ہے جسے یزید ابن معاویہ لعنۃ اللہ علیہ  نے  رکھی ہے لہذا مجتہد باتقوی ٰکی زیر نگرانی علماء کی ایک کمیٹی بننا چاہیے جو ہر شعائر حسینی کے بارے میں حکم  شرعی کو بیان کریں۔اللہ تعالٰی سے توفیق اور صبر و استقامت چاہتے ہیں یہ سب جانتے ہیں اور شیعیان ،موالیان نیز  عاشقان اباعبداللہ الحسین ؑکے پاس تجربے سے ثابت ہے کہ  قیام امام حسین ؑ،عاشورا اور  واقعہ کربلا خدا وند متعال  نے دشمن کے شر سے محفوظ رکھا ہے جس طرح قرآن مجید کو محفوظ رکھا ہے  ﴿وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾

 اور اس کا نور ہر  دن اور ہر  سال چمکتا رہتا ہے ،تا کہ  ایک روشن سورج  اور چمکتا ہوا چاند  کی مانند  حسینی  انقلابیوں اور منتظران مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ اشریف  کی راہوں میں روشنی ڈالے،وہ مہدیؑ  جوخون حسین ؑ کا بدلہ لے  گااوریا لثارات الحسینؑ  کا  نعرہ بلند کرتے ہوئےدشمنان امام حسین ؑ سے انتقام لے گا اور شعائر حسینی کے مشعل ظلم ،جور اور بربریت کے خلاف زندہ دلوں میں ہمیشہ کے لئے باقی رہے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، اللّهم عجل لوليك الفرج والنصر والعافية، وأجعلنا من خُلّص شيعته وأنصاره والمستشهدين بين يديه آمين.

(السلام عليك يا أبا عبد الله، وعلى الأرواح التي حلّت بفنائك، عليك مني سلام الله أبداً ما بقيتُ وبقي الليل والنهار، ولاجعله الله آخر العهد مني لزيارتكم، السّلام على الحسين وعلى علي بن الحسين وعلى أولاد الحسين وعلى أصحاب الحسين) الذي بذلوا مهجهم دون الحسين عليه السلام ورحمة الله وبركاته.

العبد

عادل بن السيد علي العلوي

قم المقدسة ـ الحوزة العلمية

26 ذو الحجة/ 1440 هـ ق



[1] الحج: 32.

سوال بھیجیں