سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

علماء انبیاءکے وارث! کیوں ا ور کیسے؟

علماء انبیاءکے  وارث!  کیوں ا ور کیسے؟

از: سیدعادل علوی(مدظلہ)

ترجمہ: ذاکرحسین ثاقب

عن الإمام الصادق عن آبائه (عليهم السلام) قال: "من سلك طريقاً يطلب فيه علماً سلك الله به طريقا إلى الجنة، وانّ الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضى به، وانه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهما، ولكن ورّثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر"[1]

امام صادق علیہ السلام اپنے آباء  عليهم السلام سے نقل کرتےہوئے فرماتے ہیں: جو شخص کسی راستے پر تحصیل علم کے لئے قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ  اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ اور ملائکہ بھی اپنے بال و پر کو ان کے لئے زمین پر بچھاتے ہیں اور دنیا کی تمام موجودات جو زمین پر ہے اور جو آسمان پرہے اور جو سمندروں کے تہ پر سب  ان کے لئے استفار کرتے ہیں ۔ ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں کے چاندکی ستاروں پر۔  بتحقیق علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے (کسی کو ) اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا ، بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا۔

 اس روایت کوذکر کرنے کا مقصد  صرف امام علیہ السلام کے اس جملے " العلماء ورثة الأنبياء" پر ذرا سی روشنی ڈالناہے۔چونکہ (امام کاکلام ، کلام کا امام) جب امام کوئی کلام کرے  تو اس کی تصدیق کرو کیونکہ صحیح قول وہی ہے جو امام نے فرمایا ہے ۔جو  نور ہےجن کی چمک سے  اسلام و قرآن کے بام و در روشن و منور ہیں ۔ قرآن مجید کی  طرح ائمہ طاہرینؑ کے  کلام میں بھی  اپنے  اندر  اعلیٰ معانی  پوشیدہ  ہیں ۔

چونکہ عترت اطہار علیہم السلام  قرآن مجید کی طرح ثقل  اکبر ہے  جن  کو رسول اکرمﷺ نے ہمارے درمیان چھوڑا۔یہ  حدیث رسول اللہ کی  مشہور اور متواترحدیث ہے۔

واضح رہے کہ وراثت" وراثة العلماء للأنبياء " کے  مختلف جہت  ہیں اور بہت سے پہلوؤں پربحث کیا جاسکتاہے۔آئیے !  اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے ان  میں سے بعض  کلیدی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔  تاکہ  جو اس روایت  کی گہرائی  تک جانا چاہتا ہے ان   کیلئے کچھ  بنیاد ی  اصول بیان ہو۔ارشاد خداوندی ہے کہ   " وَفَوْقَ كُلّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ " اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک دوسرا صاحب علم موجود ہے ۔

وارثت کے مختلف پہلوؤں میں سے بعض  یہ ہیں:

1۔ مالی وراثت

علماء انبیاء کی اموال کے وارث نہیں ہوتے ہیں ۔ چونکہ نبی کے اموال کا وارث وہی بن سکتاہے جو نبی سے باہمی قرابت و رشتہ داری کاتعلق  رکھتاہو۔

 جبکہ علماء کتاب خدا (قرآن )کے وارث ہوتے  ہیں جس طرح سلیمانؑ داؤد ؑکے اور یوسفؑ یعقوب ؑ کے وارث بنے  ۔ عالم نبی کی دنیوی مال ومتاع کےوارث نہیں ہوتےجس کے بارے میں نص موجود ہیں ۔

امام ؑ کا  قول ہے: "إن الأنبياء لم يورثوا ـ أي للعلماء لتناسب الحكم والموضوع ـ ديناراً ولا درهماً"بتحقیق انبیاء نے (کسی کو ) اپنا وارث  نہیں بنایا(  یعنی ، علماء کیلئے چونکہ  حکم (وارث ہونا)اور موضوع (علماء )میں تناسب کی وجہ سے )  درہم و دینار کاوارث  نہیں بنایا ، ایک اور  روایت میں  درہم ودینار کی جگہ (الأصفر والأبيض)یہ ایک کنایہ ہےسونا، چاندی  کیلئے یا سونے کے دینار اور چاندی کے درہم    جو صدر اسلام میں جاری ہوتاتھا۔

2۔ علمی وراثت

یقیناً علماء انبیاء کےعلوم کے وارث ہوتے ہیں ۔جیسا کہ روایت میں بیان ہوا کہ:" ولكن ورّثوا العلم"  یہاں پر علم سے مراد  وہ مفید علم ہے جس سے لوگ  فائدہ اٹھائے اور جس کا جہل  لوگوں کیلئے  نقصان پہنچائے۔ یعنی علماء انیباء کے وارث  ہیں علم دین  میں  جیسے: علم اصول اور انکے فروعات، علم اخلاق(علم فقہ ،عقائد )جیسا کہ روایت میں وارد ہواہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:کہ" إنما العلم ثلاث آية محكمة، وسنّة قائمة، وفريضة عادلة" علم دین کی تین قسمیں ہیں: آیت محکمہ،سنت قائمہ اور فریضہٴ عادلہ۔

3۔ خلقی وراثت

بے شک عالم  نبیؐ کا وارث ہیں۔یعنی  انکے اعلیٰ اخلاق میں،  تواضع،  حسن سلوک اور مساکین کیساتھ اچھا برتاؤ کرنےمیں  ، حلم اورمصائب ومشکلات پر صبرکرنے  میں،  اور  رسالت کے پیغامات کو سختی کے باوجود انجام دینے میں  علماء انیباء کے وارث ہیں۔

اسی لئے    رسول اکرمﷺ کے اخلاق کو قرآن سے تعبیر کیاگیاہے۔اورقرآن مجیدمیں ارشاد ہورہاہے۔ " وإنه لعلى خُلق عظيم"اوربتحقیق آپ ؐ اخلاق کے اعلیٰ منازل پر فائز ہیں۔

 پس مبلغ رسالت(عالم )  کیلئے  بھی نبی کی پیروی کرتے ہوئے  ایسی فضائل  ، اخلاقیات اور خصوصیات   سے متصف  ہونا ضروری ہے چونکہ خلوص دل سے کہی ہوئی دل پر ہی اثر کرتی ہے جبکہ فقط زبان سے نکلاہواکلام کانوں سےتجاوز نہیں کرتا ہے۔

عالم کیلئے ضروری ہے ۔( ظاہراً  اور باطنا)نبوت کے انوار اور ولایت کے تجلیات کو اپنے وجود کےذریعے ظاہر کرے۔

4۔ تبلیغ رسالت  اور ہدایت میں وراثت

علماء لوگوں میں تعلیمات اورتزکیہ کو عام کریں ،  لوگوں کوڈرانے والا اور بشارت دینےوالاہو،اور لوگوں کو   عبادت  خدا کی طرف بلانےوالے  ہو، ان  کے اعمال  میں اخلاص  پایا جاتاہو اور    یوم معاد سے خوف رکھتےہوں ۔جس طرح انبیاء ؑ نے اپنی قوم کیلئے  یہ سارے  کام انجام دئے ۔

 خدا وند عالم قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انبیاءکی  ذمہ داریوں اور تبلیغ کے اہداف کو بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:

1۔ "وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا" اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔

2۔ "إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكّيهِمْ وَيُعَلّمَهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتااور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔

3۔ "فَإِنّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ" آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا "الّذِينَ يُبَلّغُونَ رِسَالاَتِ اللّهِ"(وہ انبیاء) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ 

4۔  "فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقّهُوا فِي الدّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلّهُمْ يَحْذَرُونَ"پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں ۔

پس نبی طبیب (ڈاکٹر)ہیں  جو سماج   اور ضررورتمندوں کے روحانی علاج کے لیئے کو شاں رہتےہے۔ قرآن مجید کے ذریعہ جیساکہ ارشاد ہورہاہے:کہ"وَنُنَزّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ " اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔

یا "هُدىً لِلنّاسِ"جو  لوگوں کیلئے ہدایت ہیں "هُدىً لِلمُتّقِينَ" متقین کیلئے ہداہت ہے۔

پس علماء اور حوزات علمیہ کو یہ حق نہیں پہنچتاہے کہ وہ  اپنی تعلیم   کو فقط فقہ واصول پر محدودرکھیں ۔ یہ تدریس اس دوا   کی طرح  ہے جو طبیب کے  بغیردیاجاتا ہے۔  

لہذا  ایک عالم اور فقیہ کیلئے    جو لوگوں کوفقہ کی تعلیم دینے کے میدان میں ہے ، ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی تربیت کریں  اورلوگوں  کو تعلیم وتزکیہ کی طرف ہدایت کریں۔اوریہ بھی  لازم ہے کہ  وہ معاشرے کے تمام مصائب ومشکلات پر صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے  رسالت کے پیغامات کو ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ بطور احسن  انجام دینے میں ہمیشہ   کوشاں ر ہیں۔جیسا کہ  رسول گرامی اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا:" أُمِرْتُ بِمُدَارَاة النَّاسِ "یعنی لوگوں کے ساتھ مدارا (نرمی)کرو۔ 

انبیاء ہمیشہ دین کی نشر و اشاعت  کیلئے  تیار رہے ہیں نبی  کے مقابلے میں ایک فرعون ضرور ہوتاہے ۔ جبکہ لوگ دشمنوں سے جاہل ہیں۔ پس عالم پر بھی لازم ہے کہ وہ محبت اور اخلاص   کے ساتھ لوگوں کے جذبات اور ان کے احساسات  کی رعایت کریں۔ کیونکہ عالم معاشرے میں ایک  اچھے طبیب کی حیثیت رکھتاہے جو سماج   اور ضررورتمندوں کے روحانی علاج کے لیئے  ان کےحالات اور  بیماریوں کے مطابق  ہمیشہ  کو شاں رہتےہے۔

جب ان سے جاہل ہم کلام ہوں تواس کی  مختلف   صورتیں  قرآن مجید میں ذکرکیا  ہے :

1۔  "وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَماً"  جب ان سے جاہل لوگ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں۔

2۔ "خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" درگزر کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے الگ رہ۔

3۔ "وَلَئِنِ اتّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ِ" اور اگر تم نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔

4۔ "وَاصْبِرْ عَلَى‏ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً" اور کافروں کی باتوں پر صبر کرو اور انہیں عمدگی سے چھوڑ دو۔


[1] ۔ سفينہ  بحار/ ج3 / ص 319.

سوال بھیجیں