سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

تولا وتبرا۔ سیدعادل علوی مدظلہ

تولا وتبرا

سیدعادل علوی مدظلہ                                                                ترجمہ: مرغوب ہندی

اللہ رب العزت اپنی محکم کتاب قرآن حکیم میں اپنے حبیب پیغمبراکرم سے خطاب کرتے ہوئے ارشادفرماتاہے۔" قل لااسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ ومن یقترف حسنۃ نزدلہ فیھاحسناان اللہ غفورشکور[1]"یعنی اے رسول لوگوں سے کہدو کہ میں تم سے اپنے اقرباکی محبت کے سواکوئی اجررسالت نہیں مانگتا۔اورتم میں جو بھی حسنہ فراہم کرے گاہم اسکے حسنات میں اضافہ کردیں گے۔بیشک اللہ بڑابخشنے والا اوربہت قدردان ہے۔

جب پیغمبر اکرمؐ نے اپنی عظیم آسمانی رسالت کولوگوں تک پہنچادیا، پیغام الہی سب کو سنادیا، دنیائے عرب کو اپنی تاریکی جہالت سے نجات مل گئی ،اوراللہ کی طرف سے مسلمانوں کودین وایمان کے سایہ میں عزت وکرامت حاصل ہوگئی تولوگ نبی اکرم ؐ کے پاس اس غرض سے آئے کہ آپکو اجررسالت ادا کردیاجئے ،اپکی تبلیغی زحمتوں کابدلہ دے دیاجائے ۔لوگوں کااس قصد سے رسول کے پاس آنا تھا کہ فوراً جبرئیل امین خداوندعالم کی طرف سے آیہ مؤدت لیکر نازل ہوئے۔ رسول اکرم ؐ سے عرض کیااے رسول آپ کے پروردگار کاحکم  ہے کہ ان لوگوں سے جوتبلیغ رسالت کااجردینے کی غرض سے آئے ہیں کہدیجئےکہ" لااسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ"  مؤدت فی القربیٰ کے معنیٰ یہ ہیں کہ قرابت داری اوررشتہ داری کی وجہ سے مجھ سے مؤدت کرو۔یایہ کہ معنی مقصودیہ ہیں کہ میرے قرابت داروں سے مؤدت اختیارکرو،کہ ان سے مؤدت مجھ سے مؤدت اورانکی محبت میری محبت ہے۔اب کون سے معنی مقصودہیں تورسول اکرمؐ نے خوداس کی وضاحت فرمادی کہ کن قرابت داروں سے مؤدت کرنی چاہیے۔

شیعہ وسنی دونوں فریق کے یہاں ابن عباس سر مروی ہے کہ جس وقت آیہ مؤدت نازل ہوئی اصحاب نے عرض کیایارسول اللہ یہ کون حضرات ہیں جن سے ہمیں حکم دیاگیاکہ محبت؟ آنحضرت نے ارشادفرمایا وہ علیؑ ،فاطمہ ؑ اوران کے فرزند ہیں۔

دوسری حدیث میں رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ نے تمام انبیاء کومختلف اشجار سے خلق فرمایا اورمیں اورعلی ایک ہی شجرہ سے خلق ہوئے ہیں ۔ یعنی ہم دونوں کاشجرہ ایک ہے ، میں اس شجرہ کی اصل ہوں،علی اس کی فرع ہیں، فاطمہ اسکا پھول ہیں ،اورحسن وحسین اسکے پھل ہیں اورہمارے شیعہ اسکے پتے ہیں۔ جوبھی اس شجرہ کی کسی بھی شاخ سے وابستہ رہاوہ نجات یافتہ ہوا۔اورجس کا اس شجرہ کی کسی شاخ سے تعلق ٹوٹاوہ ہلاک  وبرباد ہوا۔

اگرکوئی اللہ کا بندہ صفاومروہ کے درمیان تین ہزارسال کی عبادت وبندگی کرتارہے یہاں تک کہ مٹی میں بدل جائے مگرہم اہل بیت کی محبت درک نہ کرسکے تواللہ اسکو منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔

پھراس حدیث کے ذیل میں آنحضرت نے آیہ مؤدت کی تلاوت فرمائی۔اوراس آیہ مؤدت کے ذیل میں جوحسنہ فراہم کرنے کا تذکرہ ہے تواس حسنہ سے مراد آل محمدعلیہم السلام کی مؤدت ہے جس پہ بے شمارروایات اورمتعدد شیعہ وسنی تفاسیر شاہدہیں۔

فخرالدین رازی اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں کہ کلبی نے ابن عباس سے روایت کی ہے نبی اکرمؐ جب مدینہ تشریف لائے توآپ کی مشکلات کادامن بہت وسیع ہوتاگیااورآپ کادست مبارک ان مشکلات کے سامنے تقریباً خالی تھا۔انصارنے آپس میں کہاکہ اس اللہ کے رسول کے تمہارے اوپر بیشمارحقوق واحسانات ہیں۔انکے ہاتھوں  اللہ نے تمہاری ہدایت فرمائی ہے۔اورتمہارارشتہ دارہیں ۔تمہارے شہرمیں تمہارے ہمسایہ ہیں۔ کچھ مال اکٹھاکرواور انکی خدمت پیش کرو۔چنانچہ انصارنے مال اکٹھاکی اورپیغمبرکی خدمت میں پیش کیاآپ نے وہ سارا سامان ومال واپس کردیا۔تواس موقع پریہ آیت نازل ہوئی۔

چنانچہ نبیؐ نے اس راستے سے لوگوں کواپنی عترت کی مؤدت پہ آمادہ کیااورترغیب دلائی۔اسکے بعدفخرالدین رازی لکھتے ہیں زمخشری صاحب تفسیرالکشاف نقل کرتے ہیں پیغمبراکرم سے کہ آپ نے فرمایاکہ جوشخص کہ آل محمدؐ کی محبت پہ مرجائے وہ اس حال میں مرتاہےکہ اس کے سارے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔اورجوشخص آل محمدؐ کی محبت پہ مرجاتے تووہ  توبہ کے ساتھ مرتاہے،اورجوآل محمدؐ کی محبت پرمرجائے تواسکوپہلے ملک الموت اورپھرمنکر ونکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں ،اورجوآل محمدؐ کی محبت پہ مرجائے وہ جنت کی طرف اس طرح سےروانہ ہوتاہے جیسے عروس اپنے شوہر کے گھرکی طرف روانہ کیجاتی ہے،اور جوآل محمدؐ کی  محبت پہ مرتاہےاسکے لئے قبرہی میں جنت کی طرف سے دروازہ کھول دئیے جاتے ہیں۔اورجوآل محمدؐ کی محبت پہ مرجائے اللہ اس کی قبرکوملائکہ رحمت کی زیارتگاہ بنادیتاہے، اورجوآل محمدؐ کی محبت پہ مرتاہے،وہی عین سنت وجماعت پہ مرتاہے اورجوآل  محمدؐ کی دشمنی پہ مرتاہے اس کاحشر مرنے کے بعدیہ ہوگاکہ وہ روزحشر عرصئہ محشرمیں اس حال میں واردہوگاکہ اسکی پیشانی پہ تحریرہوگاکہ یہ بدبخت اللہ کی رحمت سے مایوس ہوچکاہے،اورجسکی موت آل محمدؐ کی دشمنی پہ آجائے وہ جنت کی خوشبوتک نہ سونگھ پائےگا۔

پھرصاحب تفسیرکشاف نے نبی اکرمؐ سے دوسری روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایاوہ قربیٰ جنکی مؤدت ومحبت واجب قراردی گئی ہے، علیؑ وفاطمہؑ اورانکے دوفرزندہیں۔

اورنمازکے تشہدمیں جوآل محمدؐپہ درودنہ پڑھے اسکی نمازقبول نہیں ،اسکوسارے مذاہب اسلامیہ قبول کرتے ہیں۔اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ آل محمدؐ کی محبت واجب ہے۔

رئیس مذہب شافعی ،محمدبن ادریس شافعی اپنے معروف اشعارمیں اہلبیت کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں،اے اہل بیت ؑ رسول خداؐ  آپ کی محبت قرآن میں اللہ کی جانب سے فرض قراردی گئی ہے۔ آپکی عظمت شان اورعلومرتبت کیلئے یہی کافی ہے کہ جونماز میں آپ پہ درودنہ پڑھے اسکی نماز نمازنہیں۔



[1] ۔ سورہ شوری آیۃ: 23

سوال بھیجیں