سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

دعا عبادت کامغزہے ۔

دعا عبادت کامغزہے ۔

از: سیدعادل علوی(مدظلہ)

ترجمہ: ذاکرحسین ثاقب  ڈوروی

خداوندحکیم قرآن کریم میں ارشاد فرماتےہیں:"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِي إِذَا دَعَانِي فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ"[1]اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔

یہ بات مخفی نہ رهے که لفظ (لعل) مذکوره آیت مین یقین کےمعنی میں  آیا هے۔ کیونکه خدا کا علم هر چیز پر چھایا هوا هے اور اس کا ذکر کلام میں بلاغت کی خاطر هے جیسا که اسے اپنی جگه ذکر کیا گیا ہے پس آغاز آیت کا نتیجه هدایت و کامیابی هے پس غور کیجیے۔

یہ آیت خداوند عالم کے ان خوبصورت ترین  آیتوں میں سےایک ہے۔  جودعا کی  فضیلت اور مقام کو بیان کرتاہے۔ اوریہ لوگوں   کیلئےاعلیٰ ترین  امید کی نشانی ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ کاحکم  ہے۔کہ کوئی بھی خدا کی رحمت سے  مایوس نہ ہوجائے۔

 آیات قرآنی سب  کے سب خوبصورت ہیں  ، اور سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے ۔ کہ  "اللّهم إنّي أسألك من جمالك بأجمله، وكلّ جمالك جميل، اللّهم إنّي أسألك بجمالك كلّه"[2] اے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری خوبصورتی کے تمام مراتب کے واسطے؛ اے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے جمال کے اعلی ترین مرتبے کے واسطے، اور تیرے جمال کے تمام مراتب بہت جمیل ہیں، اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے جمال کے تمام مراتب کے واسطے۔

اس آیت مبارکہ میں سات مرتبہ (ضمير متكلم وحده) استعمال کیا گیا ہے ، جو  اللہ تعالیٰ   کی  ذات  کی طرف اشارہ  ہے۔ جس میں  دعا کی عظمت،دعامانگنے والے کی عظمت، جس سے دعا مانگی  جارہی ہے اس کی عظمت، ان کی نیکی اور سخاوت کی عظمت ،  اپنے بندے سے دعا کی قبولیت   اورصرف ذات باری تعالیٰ سےاچھے امید کی   عظمت  و رفعت کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

پہلا: (عبادي) میں  حرف "ی"متکلم وحدہ پر دلالت کرتی ہے۔

دوسرا: (عنی) میں حرف"ی" متکلم وحدہ ہے ۔

تیسرا: (إني) میں  حرف "ی" متکلم وحدہ ہے ۔

چوتھا:(أجيب)میں فاعل کی ضمیر جو اللہ کی طرف پلٹتی ہے۔

پانچواں:(دعانِ)میں حرف "یاء" محذوف ہے، جس کی دلیل نون پر کسرہ ہے۔

چھٹا:(لي) میں  حرف "ی" متکلم وحدہ ہے ۔

ساتواں:(بي) میں  حرف "ی" متکلم وحدہ ہے ۔

آیت کےمتعلق دلچسپ نکات

پہلانکتہ:اللہ تعالیٰ کاقول: (إني قريب)سے مراد یعنی "ونحن أقرب إليہ من حبل الوريد"اورہم انسان سے اس کی رگ حیات سے بھی زیادہ قریب  ہیں۔بلکہ خدا انسان  اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔پس  انسان اپنے نفس سے مخاطب ہوکر اور پوشیدہ  طور بغیر کسی واسطےکے  خدا کو  پکاریں  اللہ تعالٰى اپنے سب بندوں کے نزدیک ہے۔ پکارنے والے کى آوازسنتے ہیں۔(فإني قريب أجيب)

دوسرانکتہ: اللہ تعالیٰ کاقول: (أُجيب)فعل مضارع ہے جو استمراراور  دوام(  بدون وقفہ  )پردلالت کرتاہے۔پس   اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے کہ تم جب بھی چاہو، جس جگہ  سے  چاہو، جس طرح سے چاہو اور جس کام کیلئے چاہومجھے پکارو ( مجھ سےدعامانگو )میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

تیسرانکتہ: بتحقیق دعا بھی نمازاور روزہ  کی طرح  بذات خود ایک عبادت ہے،استجابت  دعا سے  قطع نظر کرتے ہوئے۔ بلکہ رسول اسلام ﷺ سے  روایت ہے۔"الدّعاء مخّ العبادة"یعنی دعا عبادت کامغزہے ۔ اوریہ دعا کی حقیقت اور اس   کے بلند ترین مقام وحیثیت کی طرف اِشارہ کرتاہے۔ جس طرح  انسانی جسم میں دماغ کی حیثیت  ہے۔ اور مغز دماغ میں ہے ،یہ وہی ہے جو انسانی جسم میں اعضاء جوارح اور  جوانح کے معاملات کو عقل کے ذریعے  انتظام  کرتا ہے۔

 خداسے دعا مانگنا بھی   اسی طرح سے ہے ، جو انسان کی زندگی اور جسم  دونوں میں ایک خاص    اہمیت رکھتی ہے۔جیساکہ  خلقت انسان  کا فلسفہ اور زندگی کا راز بھی یہی ہےکہ  معرفت کےساتھ خدا کی عبادت کرے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے:" وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ "[3] اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔

دعا  افضل ترین  عبادت ہے،  اگرچہ آپ کی حاجت پوری نہ ہو یا آپکی  دعا قبول نہ ہو۔لیکن  اللہ تعالیٰ نے دعاکو   قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے اوروعدہ الہی  پورا ہو کر ہی رہےگا۔  خدا  اپنے وعدے میں سچا ہے  اور خداکبھی  اور کسی  صورت میں اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا ،مگر دعا قبول ہونے کے بھی  کچھ مراتب  اورمصادیق ہیں ، جن کا ذکر اس کی اپنی جگہ  پر  کیا گیاہے ۔   

پس  خدا  کے نزدیک  اس سے بہترکیاہوگا کہ اس چیز کے بارے میں  پوچھیں جو ان کے  پاس ہے۔اگر کوئی شخص اپنے رب سے نہ پوچھیں تو گویا وہ اپنے رب  کی عباد ت میں  متکبر ہوگا ۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہیں:"وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"[4] تمہارا پروردگارنے کہا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں  گا، جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ سرتابی کرتےہیں،عنقریب  ذلیل ہو کر جہنم میں جائیں گے۔

امام باقر علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں یوں بیان فرماتے ہیں:"هو الدعاء وأفضل العبادة الدعاء"[5] یہی دُعا ہی  اصل عبادت ہے۔

دعا کی فضیلت میں بہت ساری آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں۔جیسے  :"إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ"[6] یقیناً میرا رب دعا سنتاہے (اورقبول فرماتاہے)۔ "قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلا دُعَاؤُكُمْ"[7] کہہ دو اگرتمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا پروردگار تمہیں کوئی اہمیت نہ دیتا۔

چوتھانکتہ: اللہ تعالیٰ کاقول:(إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي)یہاں پرخدا نے نہیں فرمایا "سَألَكَ الإنسان أوالنّاس" یہ ان چیزوں میں سے ہےجو  دلالت کرتی ہے کہ الطاف خداوند اور ان  کے رحمت کی  رحمیت نیکوکاروں اور مومنین   کے ساتھ  قریب ہے۔ اور اسے طمع اور امید سے پکارو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔ "وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ"[8]  اور اسے خوف  اور طمع سے پکارو، بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں سے نزدیک ہے۔

پانچواں نکتہ: اللہ تعالیٰ کاقول:(دَعْوَةَ الدَّاعِي)پس ہر سوال یا  ہر پکار اور ہر دعا "دعوة الداع" یا(دعا)کےمصادیق میں سے نہیں ہے۔بلکہ حقیقت  میں   تمام شرائط اور آداب کی رعایت کے ساتھ "دعا"کا  ہونا ضروری ہے۔  جیسا کہ شیخ  ابن فہد حلیؒ  اپنی کتاب"عدّةالداعي"میں بیان کرتے ہیں:کہ بتحقیق "دعا" زبان اور     سچے دل سے  طلب کرنے کو کہتے ہیں۔ انسان اپنی ذاتی فقر و نیاز میں  غور فکر اور سوچ و بچار کیے بغیر فقط لقلقه زبانی کو دعا نهیں  کهتے۔ پس  اگر فقط زبان  سے دعا مانگے  اور زبان دل  سے متفق نہ ہو ،یعنی دعا حضور قلب کےساتھ نہ ہو تو  یہ دعا نہیں ہے۔اور ہر سوال یا  ہر پکار "دعوة الداع" میں سےبھی  نہیں ہے۔جیسا کہ مقبول دعا کیلئے نظام تكويني اورحكم تشريعي کے ساتھ مطابق  ہونا لازم ہے۔ اور یہ دعامانگنےوالے (داعی) کے فائدے میں ہے۔

  اللہ تعالیٰ کے نزدیک بعض لوگوں کا فقیر ہوناہی ان کی مصلحت میں ہے ۔جبکہ مال ودولت کیلئے  خدا سے مانگنا اسکے ضرر میں ہے۔ لذا  ایسےشخص  کی دعا قبول نہیں ہوتی چونکہ خداوند   اسے فقیر رکھنا پسند کرتاہے ۔

جیساکہ  اس منافق کے متعلق  قرآن اور روایات   میں یہ واقعہ  نقل ہوا ہے کہ جب  اس نے مال  ودولت کے لئے اللہ کے رسولﷺ   سےدعاکرائی، اللہ کے رسول نے ان کے لئے دعاء کی، تو اللہ تعالٰی نے انہيں غنی کردیا لیکن انھوں نے زکوۃ دینے سے انکارکردیا۔

دعامیں   ضروری ہے۔ کہ انسان    یقین کامل   کے ساتھ  اور    خالص طور پر خدا کے لیے دعا مانگے۔اور حمد وثنا کےبعد  نیکی   ،احسان اوررحمت واسعہ کیلئے شوق  ورغبت سےخدا کو  پکاریں۔پس   خداوند  ہر دعا کو قبول کرتا ہے، اور اگر کوئی دعا  مستجاب نہیں  ہوتا  تو یہ حقیقت میں  دعا نہیں ہے۔ بلکہ اس کو مجازاً  دعا کہیں گے، اوریہ دعا فقط  لقلقہ زبانی اور لفاظی تک محدود ہوگی۔  جیساکہ وہ  گناہ ہے جو دعاکی قبولیت کیلئے مانع بنتے ہیں ۔دعائے کمیل کے جملے ہیں  "اللّهم اغفرلي الذنوب التي تحبس الدعاء" بارالہا! میرے  ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں ۔

لذا خالص اللہ تعالیٰ ہی کےلئے دعاکی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ"[9] پس اللہ کو پکارو اس کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے اگرچہ کافر برا منائیں۔

سدیر نے امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے۔ "عن سُدير قال: قلت: لأبي جعفر علیه السلام(الإمام الباقر) أي العبادة أفضل؟ فقال: ما من شيء أفضل عند الله عز وجل من أن يسأل ويطلب ممّا عنده، وما أحد أبغض إلى الله عز وجل ممَن يستكبر عن عبادته ولا يسأل ما عنده"

ترجمہ: راوی نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے پوچھا کون سی عبادت افضل ہے فرمایا، اللہ کے نزدیک اس سے بڑی کوئی عبادت نہیں کہ اس سے سوال کیا جائے اور خدا کا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو دعا مانگنے میں تکبر کرتاہے اور جو اللہ کے خزانہ میں ہے اسے نہیں مانگتا۔

ميسر بن عبد العزيز امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:"عن ميسر بن عبد العزيز عن أبي عبد الله علیه السلام (الإمام الصادق) قال: قال لي: يا ميسر أدع ولا تقل: إن الأمر قد فُرغ منه، إنّ عند الله عز وجل منزلة لا تنال إلّا بمسألة، ولو أن عبداً سدّ فاه، ولم يسأل لم يُعط شيئاًن فسَل تُعط. يا ميسر، إنه ليس من باب يُقرع إلّا يوشك أن يُفتح لصاحبه"[10]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے میسر دعاکر اور مشیت  باری کے متعلق یہ نہ کہو جو امر ایجاد سے متعلق تھا وہ ہوچکا۔ خداکے نزدیک منزلت  ہے جس کو بندہ بغیرسوال کئے نہیں پاتا۔ اگر کوئی اپنا منہ بند کرلے اور سوال نہ کرے تو اس کو کچھ نہ ملے گا۔ پس  اللہ سے سوال کرو وہ ضرور دے گا اے میسر جو دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا قریب ہے کہ وہ اس پر کھل جائے۔

برادرعزیز!: اتنی اہمیت کے  باوجود بھی کیا  یہ ممکن ہےکہ انسان دعا  سے ہاتھ اٹھائے،سستی کا اظہارکرےاورتھکاوٹ محسوس کرے؟! ابھی  اپنے ہاتھوں کو اللہ کے حضور دعا کےلئے بلند کرےاور جو چاہے خدا سے مانگےحتی کھانے میں  ڈالنے کیلئے نمک کےمتعلق   سوال  کرےتو وہ اپنے فضل وکرم سے نوازے گا۔

بتحقیق دعا انبیاءکاہتھیار،مومنین اور صلحاء کی سپر ، دین کا ستون،محکم قلعہ ، زمین اور آسمان کا نور، جنت اور نجات کی چابی، فتح وکامیابی  اورخوشحالی کی علامت ، نور آفاق اور معیشت (رزق وروزی )کا ذریعہ ہے۔


[1] ۔ سورہ بقرة: 186۔

[2]۔ مفاتيح الجنان  دعائے سحر ۔

[3] ۔ سورہ ذاريات: 56۔

[4] ۔  سورہ غافر: 60۔

[5] ۔ الكافي: 2: 338۔

[6] ۔سورہ ابراهيم: 39۔

[7] ۔ سورہ فرقان: 77۔

[8] ۔ سورہ اعراف: 56۔

[9] ۔سورہ  غافر: 14۔

[10] ۔ الكافي: 2: 338۔

سوال بھیجیں